سزاوار کے معنی
سزاوار کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ سَزا + وار }
تفصیلات
iفارسی زبان میں اسم |سزا| کے ساتھ |وار| بطور لاحقۂ نسبت و تشبیہ لگانے سے مرکب |سزاوار| بنا۔ اردو میں فارسی سے ماخوذ ہے اور بطور اسم صفت استعمال ہوتا ہے۔ ١٦٠٩ء کو "قطب مشتری" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["ہونا کے ساتھ"]
اسم
صفت ذاتی ( واحد )
اقسام اسم
- جمع غیر ندائی : سزاوار[سزا + وا + روں (واؤ مجہول)]
سزاوار کے معنی
ترے کرم کا سزاوار تو نہیں حسرت اب آگے تیری خوشی ہے جو سرفراز کرے (١٩٥١ء، حسرت موہانی، کلیات، ٣٠)
"ان کا شعر اتنا پختہ ہے کہ ان کو حافظ سندھ کہنا ان کی شان کے سزاوار ہے۔" (١٩٨٩ء، جنگ، کراچی، ٢١ / اپریل)
احباب کو تری نگہ لطف سزاوار دشمن کو ترا خنجر خونخوار مبارک (١٩١٥ء، جان سخن، ٤)
سزاوار کے مترادف
درست, مناسب, موزوں
درست, زیبا, سزاوار, قابل, لائق, لازم, مبارک, مستحق, مستوجب, مسعود, مناسب, موزوں, واجب, ٹھیک
سزاوار english meaning
worthydeserving; becomingfitsuitablecongruousapplicableproperexcellent[ پانی + بجلی ]hydroelectricity ; hydel power
شاعری
- منصور نے جو سر کو کٹایا تو کیا ہوا
ہر سر کہیں ہوا ہے سزاوار عشق کا - تلوار کے تلے بھی ہیں آنکھیں تری اُدھر
تو اس ستم کا میر سزاوار کیوں نہ ہو - سو ظلم کے رہتے ہیں سزاوار ہمیشہ
ہم بیگنہ اُس کے ہیں گنہگار ہمیشہ - راہ حقیقت روح سوں تعلق دل تھے کیتا کوچ
عاشق پر لی حال سزاوار نا کہنے آوے نوج - سر اوٹھایا جو بگولے نے پریشان ہوا
خاک ہو خاک کے پتلے کو سزاوار گھمنڈ - ہے زیر چرخ سزاوار حمد اس کا نام
رکھا ہے جن نے فلک کو بغیر تھونی تھا - ناحق عذاب حق کے سزاوار ہوتے ہو
کیوں خون پنجتن میں گرفتار ہوتے ہو - شوق کیا دام مرے دل کے لگاتا کوئی
یہ تو ٹوٹا تھا سزاوار بہاہی کب تھا - گھٹے شمشیر زنی سے کف نازک میں ہیں
یہ جگر داری تھی کس خوں کے سزاوار کے بیچ - سزاوار شاہی کوں ہے ساز دار
ہنر منر جو سار ہور رازدار
محاورات
- سزاوار ہونا