سودا[2] کے معنی
سودا[2] کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ سَو (و لین) + دا }
تفصیلات
iفارسی سے اردو میں داخل ہوا اور بطور صفت نیز بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ اردو میں سب سے پہلے ١٦٤٩ء کو "خاور نامہ" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔
[""]
اسم
اسم کیفیت ( مذکر - واحد ), صفت ذاتی, اسم معرفہ ( مذکر - واحد )
سودا[2] کے معنی
["\"نتیجتہً سودا کی بہت سی قسمیں پہلے کی نسبت اب زیادہ تر نفسیات کے ذریعے دور کی جاتی ہیں۔\" (١٩٦٣ء، تجزیۂ نفس (ترجمہ)، ٣٣)"," سر ہو تو سر میں زلف کا سودا ہی چاہیے دل ہو تو دل میں دردِ محبت ضرور ہو (١٩٨٧ء، تذکرۂ شعرائے بدایوں، ٥٨:١)"," سر میں سودا بھی نہیں دل میں تمنا بھی نہیں لیکن اس ترکِ محبت کا بھروسا بھی نہیں (١٩٣٥ء، شبنمستان، ٦٥)"," سودا کو ترے ترانہ اک کافی ہے مستوں کو ترے بہانہ اک کافی ہے (١٩٣٨ء، الخیام، ٦٠)"]
["\"عرب کالی لڑکی کو سودا کہتے ہیں جو اسود کا مؤنث ہے۔\" (١٩٨٦ء، فاران، کراچی، جولائی ٤٧)"]
["\"اگر مالیخولیا کا سبب وہ فضلات ہوں جو کہ سودا کی طرف مائل ہوں. اسکو مقوی دماغ ادویہ کھلائیں۔\" (١٩٤٧ء، جراحیات زہراوی (ترجمہ)، ١١)"]
سودا[2] کے مترادف
خبط, خیال, عشق, دھن, سیاہ
سودا[2] کے جملے اور مرکبات
سودا زدہ