شبنم کے معنی
شبنم کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ شَب + نَم }اوس
تفصیلات
iفارسی اسم |شب| کے ساتھ فارسی اسم |نم| ملنے سے |شبنم| بنا۔ اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ اور سب سے پہلے ١٦٣٥ء کو "سب رس" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["ازلۂ شب","ایک قسم کا سفید اور نہایت باریک کپڑا","نمی شب","نمیئے شب","وہ رطوبت جو ہوا میں سے درختوں پر ٹپکٹی ہے"],
اسم
اسم نکرہ ( مؤنث - واحد ), اسم
اقسام اسم
- لڑکی
شبنم کے معنی
یہاں نہ کوئی درخت ہو گا نہ پھول پتے، نہ گھاس شبنم (١٩٨١ء، اکیلے سفر کا اکیلا مسافر، ١٠٠)
"سرخ کا مدانی کا شبنم کا بغیر چنا دوپٹہ" (١٩٦٤ء، نور مشرق، ٥٣)
شبنم کے جملے اور مرکبات
شبنم افشاں, شبنم افشانی
شبنم english meaning
"night-moisture"dew; a very fine muslina kind of fine linenShabnam
شاعری
- چمن پر نوحہ درازی سے کس گل کا یہ ماتم ہے
جو شبنم ہے تو گریاں ہے جو بلبل ہے تو نالاں ہے - رویا کئے ہیں غم سے ترے ہم تمام شب
پڑتی رہی ہے زور سے شبنم تمام شب - اشک شبنم بچ رہے تھے کچھ خزاں کے جُور سے
رنگِ گلشن کے لئے یہ بھی لٹانے آئے ہیں - اڑ نہ جائے کہیں یادوں کی نمی دھوپ کے ساتھ
آپ شبنم کی طرح ذہن پر اترا نہ کریں - بھلا گل تو ہنستا ہے ہماری بے ثباتی پر
بتا روتی ہے کس کی ہستی‘ موہوم پر شبنم - برگِ گل قطرۂ شبنم سے جُھکا جاتا ہے!
بارِ احساں بڑی مشکل سے اٹھا ہو جیسے! - بلند اور ہواے آفتابِ صبح یقیں
یہ دیکھنا ہے کہ کب تک ثباتِ شبنم ہے - پھول جب کرتے ہیں شبنم کی ضرورت محسوس
رات جاتے ہوئے کچھ اشک بہا جاتی ہے - پنکھڑی کوئی بھی شبنم سے نہیں ہے خالی
ساقئِ صبح کا ہر پھول میں میخانہ ہے - چمن میں گریۂ شبنم غلط سہی‘ لیکن
سوال یہ ہے کہ پھولوں کو کیوں ہنسی آئی
محاورات
- در خانہ مور شبنم طوفان است