شبیہ کے معنی
شبیہ کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ شَبِیہ }
تفصیلات
iعربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ اردو میں بطور اسم ہی استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٦٥٤ء کو "گنج شریف" میں مستمعل ملتا ہے۔, m[]
شبہ شَبِیہ
اسم
اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
اقسام اسم
- جمع : شَبِیہیں[شَبی + ہیں (ی مجہول)]
- جمع غیر ندائی : شَبِیہوں[شَبی + ہوں (و مجہول)]
شبیہ کے معنی
"اُس کی شبیہ و مثال کوئی نہیں" (١٩٣٢ء، سیرۃ النبیۖ، ٤٧٨:٤)
"سکوں پر حکمرانوں کی شبیہیں اتاری جانے لگیں" (١٩٨٧ء، فاران، کراچی، اپریل، ٥٥)
"ڈرامے کی صنف اس لیے منتخب کی کہ یہی وہ صنف ادب ہے جس کے آنگن میں زندگی کے گلاب، اپنی اورجنل شبیہ جیتے رنگوں اور جاگتے اطوار کھِل اٹھتے ہیں" (١٩٧٨ء، کیسے کیسے لوگ، ١٠)
"کوئی بت تراش پتھر کی سیل پر سے فاضل بوجھ اتار کر اس کے اندر سے وہ شبیہ برآمد کرے جو ظاہری آنکھ سے تو پوشیدہ تھی لیکن جسے بت تراش کی باطنی آنکھ نے گرفت میں لے لیا تھا" (١٩٨٢ء، دوسرا کنارا، ٨)
نظر میں آگئی اپنے ہی دوستوں کی شبیہ جو سنگ مجھ پہ گرا آئنا دکھائی دیا (١٩٧٩ء، زخمِ ہنر، ٢٤١)
"منٹو کے ہاں طوائف کی شبیہ موپاساں کی طوائف سے ملتی جلتی ہے" (١٩٧٣ء، ممتاز شیریں، منٹو، نہ نوری نہ ناری، ١٠٧)
"یہ بزدلانہ فرار مہاراجا کی اس شبیہ کو ریزہ ریزہ کرنے کا باعث بن گیا جو اس نے بڑی محنت اور لاگت سے بنائی تھی" (١٩٨٢ء، آتشِ چنار، ٤١٢)
فراقِ یار میں روتا ہوں میں باندھ کر مضمون شبیہیں بہر ماتم جیسے بنتی ہیں محرم میں (١٨٥٤ء، دِیوان اسیر، ٢٩٧:١)
شبیہ کے جملے اور مرکبات
شبیہ بدائرہ
شبیہ english meaning
PictureportraitlikenessimagepictureresemblanceSemblanceSimilarity
شاعری
- وہ تیغ کی چمک وہ تڑپ راہوار کی
رف رف کی اک شبیہ تو اک ذوالفقار کی - خوزادہ شہ ہر دو سرا کی آمد ہے
شبیہ حضرت خیر الورا کی آمد ہے - شبیہ شکل سے ہے حال ضبط عشق کے بیچ
کہ رنگ روپ ہے سب کچھ ولیک بے جاں ہیں
محاورات
- تشبیہہ دینا