شمار کے معنی

شمار کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل

{ شُمار }

تفصیلات

iفارسی مصدر |شمردن| سے فعل امر |شمار| اردو میں من و عن داخل ہوا اور بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٥٠٣ء کو "نو سرہار (قلمی نسخہ)" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["درجہ بندی","گننے والا","مرکبات میں جیسے انجم شمار","کاؤنٹ ڈاؤن","کرنا ہونا کے ساتھ"]

شمردن شُمار

اسم

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )

شمار کے معنی

١ - گنتی، تعداد۔

"میں چپ ہو گیا اور نوٹس کی رقم کی بجائے کتابوں اور کاپیوں کو شمار کرنے لگا۔" (١٩٨٦ء، قطب نما، ٩٦)

٢ - شمولیت، شامل ہونا، گردانا جانا، کسی زمُرے میں شامل کرنا۔

"ایکس ریز . کا شمار مفید ترین عملی دریافتوں میں ہوتا ہے۔" (١٩٧١ء، مثبت شعاعیں اور ایکس ریز، ١٢٣)

٣ - حساب۔

 تری نگاہ کرم کی امید ہے یارب مرے گناہوں کا ورنہ کوئی شمار نہیں (١٩٨٤ء، زادِ سفر، ٧٠)

٤ - [ نجوم ] حساب کتاب، قیاس۔

 کہیں پوتھیوں سے وہ کرکے بچار ہے سورج کے چکر پہ اس کا شمار (١٨٩٣ء، صدق البیان، ٢٣)

٥ - لاحقہ فاعلی، تراکیب میں مستعمل، جیسے سبحہ شمار، اختر شمار وغیرہ میں۔ (ماخوذ: جامع اللغات)

شمار کے مترادف

احصا, قطار, گنتی, عدت, عدد, تعداد, محاسبہ, اندازہ

اندازہ, تخمینہ, تعداد, جانچ, حساب, گنتی, گننا, لیکھا, کمیّت

شمار کے جملے اور مرکبات

شمار داں, شمار کنندہ, شمار نما, شمار نویس, شماریات داں, شمار سے باہر

شمار english meaning

countingcomputingnumbering; calculationamount; accountnoteestimation(of hand) having lovely |henna| patternsbeautifiedbeautifullovelypicture gallerystudio

شاعری

  • حساب کاہے کا روز شمار میں مجھ سے
    شمار ہی نہیں ہے کچھ مرے گناہوں کا
  • الّواع جرم میرے پھر بے شمار و بے حد
    روزِ حساب لیں گے مجھ سے حساب کیا کیا
  • روز شمار میں بھی محاسب ہے گر کوئی
    تو لے حساب کچھ نہ کر آخر حساب ہے
  • محبتیں جب شمار کرنا تو سازشیں بھی شمار کرنا
    جو میرے حصّے میں آئی ہیں وہ اذیتیں بھی شمار کرنا
  • ان انگلیوں کو چومنا بھی بدعتیں شمار ہو
    وہ جن سے خاک پہ نمو کی آیتیں لکھی گئیں
  • تاروں کا گو شمار میں آنا محال ہے!!
    لیکن کسی کو نیند نہ آئے تو کیا کرے!!
  • جُھلستی ریت میں اُگنے لگے ہیں پُھول ہی پُھول
    کرم جو مُجھ پہ کیا بے شمار تُونے کیا
  • مرے ہم سفر‘ تجھے کیا خبر!
    یہ جو وقت ہے کسی دُھوپ چھاؤں کے کھیل سا
    اِسے دیکھتے‘ اِسے جھیلتے
    مِری آنکھ گرد سے اَٹ گئی
    مِرے خواب ریت میں کھوگئے
    مِرے ہاتھ برف سے ہوگئے
    مِرے بے خبر‘ ترے نام پر
    وہ جو پُھول کھلتے تھے ہونٹ پر
    وہ جو دیپ جلتے تھے بام پر‘
    وہ نہیں رہے
    وہ نہیں رہے کہ جو ایک ربط تھا درمیاں وہ بکھر گیا
    وہ ہَوا چلی
    کسی شام ایسی ہَوا چلی
    کہ جو برگ تھے سرِ شاخِ جاں‘ وہ گرادیئے
    وہ جو حرف درج تھے ریت پر‘ وہ اُڑا دیئے
    وہ جو راستوں کا یقین تھے
    وہ جو منزلوں کے امین تھے
    وہ نشانِ پا بھی مِٹا دیئے!
    مرے ہم سفر‘ ہے وہی سفر
    مگر ایک موڑ کے فرق سے
    ترے ہاتھ سے مرے ہاتھ تک
    وہ جو ہاتھ بھر کا تھا فاصلہ
    کئی موسموں میں بدل گیا
    اُسے ناپتے‘ اُسے کاٹتے
    مرا سارا وقت نکل گیا
    تو مِرے سفر کا شریک ہے
    میں ترے سفر کا شریک ہوں
    پہ جو درمیاں سے نکل گیا
    اُسی فاصلے کے شمار میں
    اُسی بے یقیں سے غبار میں
    اُسی رہگزر کے حصار میں
    ترا راستہ کوئی اور ہے
    مرا راستہ کوئی اور ہے
  • منظر کے ارد گرد بھی اور آرپار دُھند
    آئی کہاں سے آنکھ میں یہ بے شمار دُھند!
  • کبھی یوں بھی ہو ترے روبرو، میں نظر ملا کے یہ کہہ سکوں
    ’’مری حسرتوں کو شمار کر، مری خواہشوں کا حساب دے!‘‘

محاورات

  • زمرے میں شامل ہونا / شمار کیا جانا
  • سانس کا شمار ہونا
  • شمار میں آنا(یا ہونا)
  • شمار میں نہ ہونا
  • شمار نہ رہنا یا ہونا
  • وہ کس شمار و قطار میں ہے
  • کس شمار (قطار یا گنتی) میں ہے
  • کس شمار قطار میں ہے

Related Words of "شمار":