شمال کے معنی
شمال کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ شُمال }
تفصیلات
iعربی میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ عربی سے اردو میں اصل صورت اور مفہوم کے ساتھ داخل ہوا اور بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٦٧٨ء کو "کلیاتِ غواصی" میں مسعتمل ملتا ہے۔, m["(جمع شمائل ان معنوں میں)(شَمَلَ)","اتر کی جانب","بایاں ہاتھ","جانب قطب شمالی","دست چپ","دستِ چپ","قطب شمالی کی طرف اگر سوج کے چڑھنے کی طرف منہ کرکے کھڑے ہوں تو شمال بائیں طرف ہوتا ہے"]
شمل شُمال
اسم
اسم ظرف مکاں ( مذکر - واحد )
شمال کے معنی
"دائیں ہاتھ کو شمال کی جانب کیا۔" (١٩٨١ء، قطب نما، ١٤)
عطر میں بس رہی ہے آج نسیم اور شمال و صبا ہیں عنبر بیز (١٩٣١ء، بہارستان، ٨٦)
نہیں دستِ شمال یار زیبِ آستیں شاید معطر بوئے گل سے دامنِ باد شمالی ہے (١٨٦٧ء، رشک، کلیات (قلمی نسخہ)، ١٥٣)
شمال english meaning
The north wind; the northcast amorous glances atkeep in viewkeep under one|s eye
شاعری
- ظاہر شمال میں کوئی تارا ہُوا تو ہے
اذن سفر کا ایک اشارا ہُوا تو ہے - خاموش میر شمع رسالت کی بجھ گئی
باد شمال ظلم نے کی صبح ترکتاز - اگر چہ ٹوٹ چکا ساغر عروس بہار
ہنوز مستی باد شمال باقی ہے - سنیچر ہور بد کوں توں اے نیک فال
نکو جاکتا ہوں میں طرف شمال - ہے خواب ناز میں سبزہ چمن کے دامن پر
ادب سے موجہ جنباں ہے موجود باد شمال - حظ ناطورہ حیات جلیل
راہ مشمومہ یمین و شمال - کر سکھ سوں بیس تخت اپر خسروی مدام
جو لگ جنوب و مشرق و مغرب ہے ہور شمال