طمع کے معنی
طمع کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ طَمَع }
تفصیلات
iعربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق مصدر ہے۔ اردو میں بھی بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٤٢١ء کو "معراج العاشقین" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["طَمَعَ لالچ کرنا","ندیدہ پن"]
طمع طَمَع
اسم
اسم مجرد ( مؤنث - واحد )
طمع کے معنی
سیلاب جور بڑھتا تھا طوفان کی طرح پیوست دل میں طمع تھی سرطان کی طرح (١٩٨١ء، شہادت، ١٥٨)
طمع کے مترادف
حرص, طلب, لوبھ
آز, امید, چاہ, حرص, خواہش, طلب, لالچ, لوبھ
طمع کے جملے اور مرکبات
طمع داری, طمع دار
طمع english meaning
coveting; covetousnessvehement desire; greedinessgreedavarice; avidity; ambition; temptationallurementlurebe understood [A~ فہم]
شاعری
- آگے کسو کے کیا کریں دستِ طمع دراز
وہ ہاتھ سوگیا ہے سرہانے دھرے دھرے - نہ غصہ پاس آیا نہ طمع نے کچھ جگہ پائی (کذا)
خدا داد آپ کی خالص نیت پاکیزہ طینت ہے - پختگی آج بھی اُس بات کی انشا نہ ہوئی
گھر کو پھر آئے چلے ہم طمع خام لیے - دنیا کو نہ جانو کہ دل آرام ہے یہ
اے پختہ مزاجو طمع خام ہے یہ - اے دل خام طمع بھیجوں وہاں کیا پیغام
یہ سنا ہے جو جہاں بات نہ پکنے پائے - گر با یزید ہے توں طمع دل تھے کاڑسٹ
خاصا یزید کا ہے طمع ہور تکبری - دے چھوڑ اول طمع کیرا تیل
دل کھر پڑے پر آرزو کی ناریل - کس قدر کھاؤ گے خوش خوری میں کیا پاؤ گے
نان و حلوے کی طمع بہر حلاوت ہے عبث - نمک تھا شور بخت فکر خوان مدح شیریں پر
کہ دندان طمع نے خوں کیا ہے دست حسرت کا - نہ ہو ممیز بیگانگان و خویشاوند
پنم کی جس کو طمع ہو نہیں ہے وہ نرمم
محاورات
- بدوزدطمع دیدہ ہوشمند
- در آرد طمع مرغ ماہی بہ بند
- سلام روستائی (بے طمع) بے غرض نیست
- طمع راسہ حرف است و ہرسہ تہی
- طمع راسہ حرف است وہرسہ تہی(ست)
- طمع کا منہ کالا
- ہر کہ خواند دعا طمع دارم۔ زاں کہ من بندہ گناہگارم