طنطنہ
{ طَن + طَنَہ }
تفصیلات
iعربی زبان سے مشتق اسم ہے۔ اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٨٣٨ء کو "بستان حکمت" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔
[""]
اسم
اسم کیفیت ( مذکر - واحد )
اقسام اسم
- واحد غیر ندائی : طَنْطَنے[طَن + طَنے]
- جمع : طَنْطَنے[طَن + طَنے]
طنطنہ کے معنی
"سرخ عبا شانوں پر ڈالے، بارہ ترک سپاہیوں کے جلو میں براق جیسے گھوڑے پر طنطنے کے ساتھ بیٹھا ہوا کوئی حسین شہزادہ آئے گا۔" (١٩٧٩ء، کیسے کیسے لوگ، ١٥٣)
"سائل صاحب میں نوابی شان اور طنطنہ تھا۔" (١٩٨١ء، آسماں کیسے کیسے، ١٢٦)
"ایک طرف اس زمانے کے علی گڑھ کا وہ طنطنہ اور دوسری طرف یہ کچی پارک۔" (١٩٥٦ء، آشفتہ بیانی میری، ٦١)
"اتنی تکلیف اٹھانے کے بعد بھی مزاج کا طنطنہ نہیں گیا۔" (١٩٢١ء، اولاد کی شادی، ١٠٧)
"غزالہ بیگم بڑی طنطنے والی تھیں، بات کاٹو تو چڑ جاتی تھیں۔" (١٩٨١ء، چلتا مسافر، ١٥١)
مترادف
بانگ, شان, دھوم
انگلش
["sound","din","clamour","hubbub","noise; fame; rumour; pomp","dignity","state; pride","vanity; imperiaesness","domineering"]