فردوسی کے معنی
فردوسی کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ فِر + دو (و لین) + سی }
تفصیلات
iفارسی زبان سے ماخوذ اسم |فردوس| کے آخر پر |ی| بطور لاحقہ نسبتی لگانے سے بنا جو اردو میں بھی بطور اسم ہی اسعتمال ہوتا ہے۔ ١٩٥٨ء کو "تار پیراہن" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔, m[]
اسم
صفت نسبتی
فردوسی کے معنی
١ - جنت سے منسوب یا متعلق، جنت کا۔
آہ پھر الفت کا یہ آغوش فردوسی کہاں خاک میں مل جائے گا اک دن یہ کیفِ عشق بھی (١٩٥٨ء، تار پیراہن، ٢١٣)
٢ - فارسی کا مشہور شاعر جس کا شاہنامہ عالمی شہرت رکھتا ہو۔
"یورپ کے فضلا بھی جو فارسی سے واقف ہیں عموماً فردوسی کے کمال شاعری کے معترف ہیں۔" (١٩٠٧ء، شعرالعجم، ١٤١:١)
شاعری
- فردوسی زماں ہو حقیقت میں اے سحر
دھوئی دھلائی کوئی جنت کی ہے زباں