قلق کے معنی

قلق کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل

{ قَلَق }

تفصیلات

iعربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے عربی سے اردو میں اصل ساخت و معنی کے ساتھ داخل ہوا اور اسم کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٨١٠ء کو "کلیاتِ میر" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["بے آرام ہونا","بے آرامی","بے تابی","بے چینی","بے صبری","بے قراری","بے کلی"]

قلق قَلَق

اسم

اسم کیفیت ( مذکر - واحد )

قلق کے معنی

١ - رنج، الم، اندوہ، فکر۔

"اس شوخی و بے پروائی پر یک گونہ سا قلق ہوا۔" (١٩٨٦ء، انصاف، ١٧٤)

٢ - بے قراری، بے آرامی، بے کلی، بیتابی۔

"ان کے دل پر عجیب بے چینی اور قلق کا عالم تھا۔" (١٩٠١ء، حیات جاوید، ٥٦:٢)

٣ - افسوس، حسرت، پچھتاوا۔

"مجھے آگے نہ جانے کا قلق ہوا۔" (١٩٨٧ء، حصار، ٢٣)

قلق کے مترادف

اضطراب, دکھ

اضطراب, افسوس, الم, بیتابی, بیچینی, بےکلی, پچھتاوا, تلاملی, حُزن, حسرت, دُکھ, رنج, قَلَقَ, گھبراہٹ, ملال

قلق english meaning

fretfulnessdiscomfortperturbationcommotionanxietykeen regret

شاعری

  • اضطراب و قلق و ضعف میں کس طور جیوں
    جان واحد ہے مری اور ہیں آزار کئی
  • قلق اور دل میں سوا ہوگیا
    دلاسا تمہارا بلا ہوگیا
  • اس فسونگر سے قلق دعوی ہمچشمی ہے
    آنکھ بنوائے ذرا نرگس شہلا اپنی
  • رنج و قلق کے صدمہ و ایذا اٹھائیے
    دل کو بٹھا کے سینے میں کیا کیا اٹھائیے
  • قلق واں جو گزرا تو یاں غم ہوا
    رکا جی وہاں یاں خفا دم ہوا
  • روکا نہ آپ کو قلق و اضطراب نے
    برچھی کے پھل کو کھینچ لیا خود جناب نے
  • نظر ابر پر جو کبھی پڑے تو خیال رونے کا آبندھے
    جو تپش کو برق کی دیکھوں تو مجھے یاد آئے ترا قلق
  • نہیں چاہ میری اگر اُسے نہیں راہ دل میں تو کس لئے
    تجھے روتے دیکھا وہ رو دیا مرا ھال سُن کے ہوا قلق
  • اصغر کو جُدا دکھ ہو قلق ماں کو جُدا ہو
    گرمی کے سبب دودھ جو گھٹ جائے تو کیا ہو
  • جوش قلق نے اس کو بھی دیوانہ کر دیا
    پہلے تو ورنہ طبع تحمل میں دم نہ تھا

محاورات

  • طبیعت کو قلق ہونا
  • قلق گزرنا (یا ہونا)
  • قلق ہونا

Related Words of "قلق":