قند کے معنی
قند کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ قَنْد }
تفصیلات
iعربی زبان سے مشتق اسم جامد ہے۔ عربی سے اردو میں اصل معنی و ساخت کے ساتھ داخل ہوا اور بطور اسم و صفت استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٦١١ء کو "کلیات قلی قطب شاہ" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["ایک قسم کی دانہ دار مٹھائی","جما ہوا برف سا شیرہ","سرخ پکے رنگ کا کپڑا","سفید شکر","گاڑھا شیرہ پکا کر جمائی ہوئی کھانڈ","نہایت شیریں","کھانڈ کا معرب"]
اسم
صفت ذاتی, اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
قند کے معنی
[" خشک ٹکڑا تھا نانِ جویں کا مگر میں نے قند و نبات و عسل کر دیا (١٩٨٠ء، خوشحال خان خٹک (ترجمہ)، ١٢١)","\"آتے وقت کچھ قند اور نمکین بسکٹ ضرور لیتے آنا۔\" (١٨٩٩ء، مکتوبات حالی، ٢٧٢:٢)","\"جس کے منہ پر ململ یا سُرخ قند لپٹا رہتا تھا۔\" (١٩٨٢ء، مری زندگی فسانہ، ٥٨)"]
قند کے مترادف
شکر
بورا, چینی, شالباف, شُوگر, شکر, شکرتری, مصری, نبات, کھانڈ
قند کے جملے اور مرکبات
قندخو, قند سفید
قند english meaning
sugarsugar or candy
شاعری
- یہ ہے بحر شکر یہ ہے قند مصری
عسل اصل میں گڑ کی پاری دگانہ - ترے لباں کی حلاوت کو رکھ نظر بھیت
شکر گھلی ہے جدی ہور کھلا ہے قند جدا - تری ہر ادا لذت ہے نہایت
حلاوت میں قند و شکر بن گئی تو - جسے کچھ بھی حلاوت معرفت کی ہے سمجھتا ہے
حقیقت میں ہیں سب یک ذات جیسے قند اور بولا - اے شکر لب قند سوں تجھ لب کی ہیں باناں لذیذ
حرف تیز اس کے ہیں جیسے حلوہ سوہاں لذیذ - پھر لڈو بھی تیار کیے ‘ دے قند بہت بادام گری
براق مکد اور خرمے بھی خو شرنگ‘ امرتی بیر بلی - دیدار کا ہے عام خوش آواز و خوش اندام
اک خال پہ قربان سمر قند و بخارا - دہن کو دیکھ ترے ہونٹ چاٹتے رہ گئے
پھرا نہ قند سے منہ چاشنی چشیدوں کا - مردانہ زبان بولتی ہو
کیوں قند میں گوڑ کو گھولتی ہو - شہد ان پہ آٹھ پہر لگائے رہے ہے گھات
قند و شکر بھی دل سے فدا ہوں دن اور رات
محاورات
- بات میں قند گھولنا
- چقندر (سا) بن رہا ہے
- چقندر کاشتم زردک برآمد
- خرچہ داند بہائے قند و نبات
- شیخ پکاریں قندوری قندوری
- قند لبوں سے گھولنا
- قند لٹیں اور کوئلوں پر مہر
- قند لٹے کوئلوں پر مہر
- قند مکرر کا مزہ دینا
- قندیل فلک ہو جانا