قیامت کی کے معنی
قیامت کی کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ قِیامَت کی }
تفصیلات
iعربی زبان سے ماخوذ اسم |قیامت| کے ساتھ اردو حرف اضافت |کی| ملانے سے مرکب بنا۔ اردو میں بطور صفت اور اسم مستعمل ہے۔ ١٨٥٢ء میں "کلیات منیر" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["بے انتہا","بے حد"]
اسم
صفت ذاتی ( واحد )
قیامت کی کے معنی
میں سامنے ان کے ہوں وہ ہیں سامنے میرے مجھ کو ہے قیامت میں، قیامت کی خوشی آج (١٩٠٣ء، سفینۂ نوح، ٤٤)
پلکوں پہ تازیانہ قیامت کی دستکیں سارے عذاب خواب کی حجت سے آئے ہیں (١٩٨٧ء، زندہ پانی سچا، ٢٥٨)
اُسے تاکا اُسے مارا یہی نقشا دیکھا چلتی پھرتی ہیں قیامت کی تمھاری آنکھیں (١٩٠٥ء، داغ (مہذب اللغات))
مجھے گزرتی ہے اک اک گھڑی قیامت کی جو اس طرح سے گزارے تو کیا گزرے دن (١٨٨٤ء، مہتاب داغ، ١٤٦)
پوچھیں وہ جب خوشی سے قیامت کی بات ہے میرا ہی حال اور مجھی سے بیاں نہ ہو (١٨٩٢ء، مہتاب داغ، ١٤٦)
شاعری
- خبر نہ تھی تجھے کیا میرے دل کی طاقت کی
نگاہِ چشم اُدھر تو نے کی قیامت کی - علامت قیامت کی پیدا ہوئی
زمیں چور آٹاہو میدا ہوئی - تولے سے نہ رکتی تھی روانی تھی غضب کی
آیت تھی قیامت کی نشانی تھی غضب کی - یہ سر کھلے تو قیامت کی بات ہے زینت
یہ سر کھلے تو قیامت کی بات ہے زینب - ہر گز بچے نہ جان قیامت کی رات ہو
جس دن یہ بات پہنچے بواان کے کان تک - ہم کو اک ایک گزرتیی ہے قیامت کی گھڑی
اس کے نزدیک تو کچھ بات نہیں آج سے کل - فریاد رسول دوسرا سے نہیں ڈرتے
خاتون قیامت کی بکا سے نہیں ڈرتے - زلف جاناں کی درازی بھی شریک شب ہے
لائے گی روز قیامت کی خبر آج کی رات - بصیرت نے قیامت کی ہے اس بے دست پر پائی پر
مصیبت میں پھنسا ہوں امتیاز حق و باطل سے - صغرا کے بیانوں سے قیامت کی ہوئی دھوم
رونے لگے دروازے پہ آکر شہ مظلوم
محاورات
- قیامت کی بات ہے
- کیا قیامت کی