لذیذ کے معنی
لذیذ کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ لَذِیذ }
تفصیلات
iعربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق صفت ہے۔ اردو میں عربی سے ماخوذ ہے اور بطور صفت استعمال ہوتا ہے۔ ١٦٨٤ء کو "عشق نامہ" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["(لَذّ ۔ میٹھا ہونا)","پر لطف","خوش آئندہ","خوش ذائقہ","خوش مزہ","لذت بخش","لطف انگیز"]
لزز لَذِیذ
اسم
صفت ذاتی ( واحد )
لذیذ کے معنی
"پھر رخصت ہوتے وقت میزبان انہیں لذیذ کھانوں کا پیکٹ پیش کرتا کہ اگلے روز اطیمنان سے نوش فرمائیں۔" (١٩٨٩ء، دریچے، ٦١)
"اس کے پہلے مصرع میں قیاس آرائی کی جو لذیذ چٹکی لی گئی ہے اس پر ذوق شعری ذرا ٹھٹکتا بھی ہے۔" (١٩٨٩ء، میر تقی میر اور آجکا ذوق شعری، ١٦٩)
جذبۂ عشق زلیخا گرنہ تھا فرمائیے مصر کے بازار میں کیا تھا مہ کنعاں لذیذ (١٨٩٤ء، عاشق (فرہنگ آصفیہ)۔)
لذیذ کے مترادف
شیریں
پرلطف, پرمزہ, پیارا, خوشگوار, عزیز, مزیدار
لذیذ english meaning
sweetdeliciousluscious; pleasantdelightful; savourytastefulnice
شاعری
- نابات شکر شہد سوں میں باز تب سوں ہو رہا
اے من موھن چا کھا ہوں میں تیرے ادھر جب سوں لذیذ - اے شکر لب قند سوں تجھ لب کی ہیں باناں لذیذ
حرف تیز اس کے ہیں جیسے حلوہ سوہاں لذیذ - گفتگو صاف عجب رکھی ہے قائم( تونے)
گرچہ ہیں شعر کے واقع میں سب اقسام لذیذ - سخاوت کا لذیذ انگور آلا
صداقت سیب شیریں تو رسالا - اے شکر لب قند سوں تجھ لب کی ہیں باتاں لذیذ
حرف تیز اس کے ہیں جیسے جلوہ سوہاں لذیذ - کس قدر ہے لب شیریں کا ترے نام لذیذ
لب پہ وہ گزرے تو اک دیر رہے‘ کام لذیذ - درویشی کی جو سوختگی ہے سو ہے لذیذ
نان و نمک ہے داغ کا بھی ایک شے لذیذ - ہجر میں رحمت بھی زحمت سے زیادہ سخت ہے
یار ہو ساغر ہو مے ہو پھر یہ ہے باراں لذیذ - جذبہ عشق زلیخا گر نہ تھا فرمایئے
مصر کے بازار میں کیا تھا مہ کنعاں لذیذ - اور پکانا تو سلونے پر سلونا ختم ہے
بڑھ کے شیریں سے پکایا کس نے ہے میٹھا لذیذ
محاورات
- کل جدیدہ لذیذہ