لینا کے معنی
لینا کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ لے + نا }
تفصیلات
iسنسکرت زبان سے ماخوذ لفظ |لین| کے ساتھ |نا| بطور لاحقۂ مصدر لگانے سے |لینا| بنا۔ اردو میں بطور فعل اور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٥٦٤ء کو "دیوان حسن شوقی" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["(ماضی نا تمام) لینا کا","اپنے قبضے میں کرنا","اقتباس کرنا","انتخاب کرنا","جانے نہ دینا","حاصل کرنا","سہارا دینا","گرفت کرنا","گرفتار کرنا","ہول لینا"]
لین لینا
اسم
فعل متعدی, اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
لینا کے معنی
["\"اقبال نے اگر اپنے ضوابط علم سے اپنا مواد لیا تو کیا غضب کیا۔\" (١٩٩٤ء، نگار، کراچی، جولائی، ٢١)"," جہاں میں جو بھی گرانی شراب کی ہوتی سر اپنا بیچ کے ساقی سے ہم سبو لیتے (١٨٣٦ء، ریاض البحر، ٢٠٠)"," بچے نہ سیم و زر ان سے نہ دین و دل چھوٹے کچھ اور خاک نہیں جانتے مگر لینا (١٨٦٥ء، ناظم (فرہنگ آصفیہ))"," دل شاد تھانو، حیرت تھا لطف انجمن بھی اب حال ہی دگرگوں، مل کر کسی سے کیاں لوں (١٩٢٢ء، آئینۂ حیرت، ١٢)","\"فی سطر ٢ اور ٦ سطر سے کم کے ٨ لیے جاوینگے۔\" (١٨٥١ء، کوہ نور، لاہور، یکم جولائی، ١)","\"تم تو گھوڑے لینے کے لیے ریتاس نگر چلے گئے تھے اور میں اس محفل میں اکیلے بیٹھ کر دن اور راتیں کاٹتی رہی۔\" (١٩٦٢ء، حکایات پنجاب، ٢٣٠:١)"," بڑھ کے درباں نے لیا آج بھی دامن میرا کل چھڑایا تھا گریبان بڑی مشکل سے (١٩٣٢ء، ریاض رضواں، ٣٩٦)"," مسجم ہوگئے ہیں حسن و جبروت مجھے لینا میں بہکا جا رہا ہوں (١٩٧٨ء، ابن انشا، دل و حشی، ٧٣)"," لینا اسے ہاں بھائی یہ اب جانے نہ پائے دینے کو وہ جا پہونچا تو بائیں کو یہ آئے (١٨٧٥ء، انیس، مراثی، ٨٢:٢)","\"بھلا چیچک کی لی ہوئی آنکھ بھی کہیں پھر ملتی ہے۔\" (١٩٢٥ء، اودھ پنچ، لکھنؤ، ١، ١٣، ٩)"," ہزار شکر ملے ہم نہ بدمزاجوں سے ضرور جان ہماری یہ کینہ جو لیتے (١٨٣٦ء، ریاض البحر، ٢٠٠)"," کس کام کی ہوں گر نہ کھنچی وقت کار زار لیجے مجھے نیام سے اب بہر کردگار (١٨٧٤ء، انیس، مراثی، ١٩٤:٥)","\"او ہو ہو وہ پنکھا آگے بڑھا. وہ پھوار پڑی. وہ نم آلود ہواؤں نے لیا۔\" (١٩٠٦ء، مخزن، اگست، ٤٠)","\"ان دو شہروں کو لینے سے قبل اور خان نے سب سے پہلے بتینیا پر قبضہ کیا۔\" (١٩٦٧ء، اردو دائرہ معارف اسلامیہ، ٥٢٤:٣)","\"برق نے ایک ہاتھ سے تاج لیا اور دوسرے سے ایک دھول ماری۔\" (١٨٨٢ء، طلسم ہوشربا، ٣٠٥:١٠)","\"غذا لینے کے اسی طریقے کو ہالو روٹیک کہتے ہیں۔\" (١٩٨٥ء، حیاتیات، ٢٦)","\"ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں ایک گولی لیا کیجیے۔\" (١٩٧٠ء، تاریخ لکھنؤ، ٦:١)"," جام الفت زہر و فونباب و ہلاہل سے ہے پر جس کو لینا ہے سو لے اس ساغر لبریز کو (١٨٤٤ء، ممنون (مہذب اللغات))","\"سو آدمیوں کو لو تو ان میں سے شاید پانچ ایسے نکلیں گے جن کے دل میں . بہشت، دوزخ میں جانے کا یقین ہو۔\" (١٩١٧ء، بیوی کی تعلیم، ٢٥)"," ہم سند کے لیے لغت میں امیر فصحا کی زبان لیتے ہیں (١٨٨٨ء، صنم خانۂ عشق، ١٦١)"," جاتے کسی کے آگے ہر حالت کو لیے اپنا دہن تھا ہنس لیے اپنی تھیں آنکھیں رو لیے (١٩٢٦ء، فغان آرزو، ٢٠٩)"," بانکہ و غنہ سوں ملامت کر ان دخل بازکوں لیا مت کر (١٧٠٧ء، ولی، کلیات، ٢٧٦)"," نمود خط ہوا حس و جمال لینے کو یہ چور گھات میں تھا کب سے جال لینے کو (١٨٣٢ء، دیوان رند، ١١٣:١)"," تم نے تو نہیں خیر یہ فرمایئے بارے پھر کن نے لیا راحت و آرام ہمارا (١٨١٨ء، انشا، کلیات، ١٢)","\"کسی نے زیادہ جدت کرلی کہ جانوروں کے بال کاٹ کاٹ کر اپنے لءے اونی بھدے کپڑے بنانے لگا۔\" (١٩٢٣ء، مضامین شرر، ٤٣:١)"," بلال ہم سے نہ جزیے میں آبرو لیتے ہمیں جو اپنی خلاصی میں خوبرو لیتے (١٨٣٦ء، ریاض البحر، ٢٠٠)"," اب بھی گڑ پڑ کے ضعف سے نالے ساتواں آسماں لیتے ہیں (١٨٨٤ء، آفتاب دہ، ٨٤١)","\"اکثر ملنے والوں کو وہ کمرے کے دروازے سے لیتے اور وہیں تک پہنچاتے تھے\" (١٩٣٨ء، تذکرۂ وقار، ٩٣)"," اس نے ہمسائے میں آکر گھر لیا تو کیا ہوا اب اسے آغاز میں اپنی سناؤ دور پار (١٨٣٥ء، رنگین، (دیوان رنگین و انشا)، ٣٤)"," کیوں نہ مر جاؤ میں ایسے پر کے ہنگامے و داع لے لیا منہ پر دوپٹہ مجھ کو گریاں دیکھ کر (١٨٩٩ء، دیوان ظہیر دہلوی، ٨٢:١)"," جب تک سالم جواب کچھ دے لی اوٹھ کے نقاب آمنہ نے (١٨٨٢ء، تفسیر عفت، ٧٤)"," لینا ہے کام مجکو جوانان باغ سے بھر بھر سپر گلوں کے تئیں دو زر عیار (١٧٨٠ء، سودا، کلیات، ٣٠٤:١)"," کچھ ابتدا نہیں ہے مری انتہا نہیں میں وہ کہ مجھ سے چھیڑی کی لینا بجا نہیں (١٩١٥ء، کلام محروم، ٧٨:١)"," دم فربح ہے شرط میں دم نہ ماروں لیے خوب قاتل نے میرے مچلکے (١٩١٩ء، درشہوار بے خود، ١٠٤)"," دیار عشق میں یہ ہے رواج رسوائی ذلیل ہوتے اگر نام آبرو لیتے (١٨٣٦ء، ریاض البحر، ٢٠٠)","\"اس جامعیت پر یہ خوبی کہ جس زبان کو لیا حد کمال تک پہنچایا۔\" (١٩٠٨ء، مخزن، جنوری، ٨)","\"یہاں کوئی اس نام سے واقف نہ تھا سسرال میں لوگ خطاب لیتے ہیں۔\" (١٩٢١ء، خونی شہزادہ، ٧٢)"," مجھی کو تم پہ مسلط کرے تو دیکھو سیر ستم کا چاہے خدا انتقام گر لینا (١٨٦٥ء، ناظم (فرہنگ آصفیہ))"," کس قدر تقویٰ کی لیتا ہے بظاہر مے کشو میری باتوں پر ہے زاہد کو گمان موج مے (١٨٨٦ء، دیوان سخن، ١٩٦)"," مری پیشوائی وہاں کون کرتا لیا موت نے کوئے جاناں سے بڑھ کر (١٨٩٢ء، مہتاب داغ، ٨١)","\"برناڈوٹ فوراً نپولین کے سلام کو حاضر ہوا اور نپولین نے اس کو بڑی مہربانی سے لیا۔\" (١٩٠٧ء، نپولین اعظم (ترجمہ)، ١١:٤)","\"میاں ناصر تو اتنی بحث میں ٹھنڈے پڑ گئے مگر خالد نے اب اس مسئلہ گفتگو کو لیا۔\" (١٩٢٨ء، مضامین فرحت، ٢٨:١)"," وہ جو زنار پہنتا تو رگ جاں لیتا سر پہ قشقے کے بدل خون مسلماں لیتا (١٨٣٦ء، ریاض البحر، ٤٤)","\"مریضہ نہیں میں انجکشن نہیں لوں گی۔\" (١٩٣٩ء، شمع، اے آر خاتون، ٣٨)"," ہماری نظر شیخ پر حشر میں تھی وہ سر پر لیے حوض کوثر نہ نکلے (١٩٣٦ء، ریاض خیر آبادی لاز طنزیات و مضحکات اردو)، ١٨٣)","\"بہت اونچا لینے کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اس کی وجہ سے پراءمری سرکٹ اور سیکنڈری سرکٹ کے درمیان ردعمل کافی حد تک دور ہو جاتا ہے۔\" (١٩٧٠ء، جدید طبعیات، ١٠١)","\"اگر صرف بسوں کے دھویں کی ایک شکایت ہی کو لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ٹریفک کا شعبہ محض خانہ پری کے لیے قائم ہے۔\" (١٩٦٦ء، جنگ، کراچی، ٣٠، ٣:١٨٢)","\"سانپ کا وار اپنے پروں پر لیتا ہے۔\" (١٩٧٣ء، انوکھے پرندے، ١٦)"," اور بھی مجکو لٹاتا ہےیہ کہنا ان کا چٹکیاں لیتے ہیں ہم آپکا کیا لیتے ہیں (١٩١٠ء، تاج سخن، ١٠٨)"," کسی کے ہار میں ہوتا جو اپنا تار نفس لپٹ لپٹ کے گلے سے بدن کی بو لیتے (١٨٣٦ء، ریاض البحر، ٢٠٠)"," کھلے تھے جس قدر گلہائے صحن گلشن میں زمیں گور غریباں کی لیے ہے ان کو دامن میں (١٩١٢ء، گلکدہ، عزیز لکھنوی، ٦٥)"," کسی نے لیے اس کی چوٹی کے بال کسی نے کہا جلد چل اے چھنال (١٨٩٣ء، قصۂ ماہ و اختر پری پیکر، ٢١)"," اگر چت ہی لینے کی ہے دل میں ٹھانی سریں کے رہے نیچے چھوٹا سا تکیا (١٩٣٨ء، کلیات عریاں، ١٤)","\"ان کی قوت متخیلہ اتنی قوی ہوگئی کہ وہ بے جوڑ چیزوں اور بے میل مسئلوں میں یکسانیت اور تعلق ڈھونڈ لیتے تھے۔\" (١٩٧٣ء، احتشام حسین، اردو ادب کی تنقیدی تاریخ، ١٣٢)"," نہ توڑ شام سے اے دل شب فراق میں دم ابھی تو رات ہی ساری پڑی ہے مر لینا (١٨٨٨ء، صنم خانۂ عشق، ٣١)"," فرماتے ہیں کس واسطے لیتے ہو مری نیند کیا رات کو بھی ضبط فغاں ہو نہیں سکتا (١٩١١ء، بہارستان خیال، ١٥)"]
["\"سرکار اپنا لینا عین وقت پر زمیندار سے لیتی ہے۔\" (١٨٨٨ء، ابن الوقت، ١٤٦)"]
لینا کے جملے اور مرکبات
لینا دینا, لینا کر کے
شاعری
- بے وفا ہم ہیں اگر جانِ وفا یونہی سہی
ڈھونڈ لینا جو تمہیں کوئی وفادار ملے - بات کو سمجھ لینا عام بات ہے‘ لیکن
بات کی نزاکت کو لوگ کم سمجھتے ہیں - بے ثمر پیڑوں کو چومیں گے صبا کے سبز لب
دیکھ لینا یہ خزاں بے دست و پا رہ جائے گی - حرج ہی کیا ہے الگ بیٹھا ہوں محفل میں خموش
تم سمجھ لینا کہ یہ بھی نقش ہے دیوار کا - شوقِ سفر میں گرد نہ اتنی اُڑا کہ پھر
منزل پہ جاکے سانس بھی لینا محال ہو - کاٹ لینا ہر کٹھن منزل کا کچھ مشکل نہیں
اک ذرا انسان میں چلنے کی ہمت چاہیئے - یہ انتقام بھی لینا تھا زندگی کو ابھی
جو لوگ دشمنِ جاں تھے وہ غمگسار ہوئے - جھک کے مل سارے جہاں سے ورنہ اے دل ایک دن
دیکھ لینا کر منہ چھپانے ہیں آپ - جھک کے مل سارے جہاں سے ورنہ اے دل ایک دن
دیکھ لینا آپ سے تم تم سے تو ہوجائےگا - پڑھ لینا جو شنین پڑے جب کوئی کڑی
نانا کو کیجو یاد جو ہو آخری گھڑی
محاورات
- (کی) آڑ لینا
- آب و دانہ اٹھا لینا
- آبرو رکھ لینا یا رکھنا
- آدھا نام لینا
- آرتی کرنا یا لینا
- آزما لینا۔ آزمانا
- آسمان سر پر اٹھا لینا
- آسمان سر پر اٹھا لینا یا اٹھانا
- آسمان سے ٹکر لینا
- آسمان کی طنابیں (زمین پر) کھینچ دینا یا لینا