مآل کے معنی

مآل کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل

{ مال (ا بشکل مد) }

تفصیلات

iعربی زبان ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ اردو زبان میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٨١٨ء کو "کلیات انشا" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔, m["لوٹنا","انجام کار","جائے باز گشت","جائے بازگشت","جائے رجوع","لوٹنے کی جگہ","مرکبات میں بھی استعمال ہوتاہے جیسے خیر مآل","نتیجہ انجام"]

اول مَآل

اسم

اسم مجرد ( مذکر - واحد )

مآل کے معنی

١ - مرجع، نتیجہ، انجام، اخیر، خاتمہ۔

 نہ جانے کیا ہو مآل شگفتہ سامانی ابھی سحر کو ہے راتوں کی فکر دامن گیر (١٩٩٥ء، افکار، کراچی، مارچ، (فضا ابن فیضی)، ٣٦)

مآل کے مترادف

مرجع, انجام

آخر, آخیر, اخیر, انت, انجام, پھل, خاتمہ, مرجع, نتیجہ

مآل کے جملے اور مرکبات

مآل اندیشی, مآل خریدار, مآل غم, مآل کار

شاعری

  • تہ خنجر مآل سخت جانی دیکھیے کیا ہو
    ابھی سے خون اس قاتل کی آنکھوں سے ٹپکتا ہے
  • حرنے کہا کہ اوپسر سعد بد شعار
    آنکھیں وہ کور ہیں جو نہ دیکھیں مآل کار
  • نہیں کھلتیں آنکھیں تمھاری ٹک کہ مآل پر بھی نظر کرو
    یہ جو وہم کی سی نمود ہے اسے خوب دیکھو تو خواب ہے
  • بشر کو عاقبت کار کا خیال رہے
    بخیر دیکھئے اپنا مآل ہوکہ نہ ہو
  • حقا مآل کار پہ اس کی نگاہ تھی
    تھا وحی کا سبق تو حرا درس گاہ تھی
  • شداد کو خبر ہی نہ تھی اس مآل کی
    کھٹکے گا کاربن کے یہ باغ ارم فقط
  • یہ آیا مرے دل میں اک دن خیال
    کہ کب تک یہ احوال خسراں مآل
  • یہ سن کے غیظ آگیا اس بد مآل کو
    دایا شقی نے اشہب صر صر مثال کو
  • نہیں کھلتیں آنکھیں تمہارے ٹک کہ مآل پر بھی نظر کرو
    یہ جو وہم کی سی نمود ہے اسے خوب دیکھو تو خواب ہے
  • اپنا جو مجھے مآل سوجھے
    جی بچنے کی کچھ تو چال سوجھے

Related Words of "مآل":