ماورا کے معنی
ماورا کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ ما + وَرا }
تفصیلات
iعربی زبان میں اسم موصول |ما| کے ساتھ عربی اسم صفت |ورا| لگانے سے مرکب بنا۔ اردو میں عربی سے ماخوذ ہے اور اردو میں بطور صفت، حرف استثنا اور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٨٢٥ء میں "فغان قاری" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["اس کے علاوہ","اس کے علاوہ جھوٹ","بيش تر","حد سے زيادہ","غَیر مَعقُول","مَروَجَہ یا مَعمُول کی حَد سے آگے"]
اسم
حرف استثنا, اسم نکرہ, صفت ذاتی
ماورا کے معنی
[" یہ تو کہہ رنج سفر کے ماورا پیش آیا تجھ کو کیا کیا مجرا (١٨٢٨ء، مثنوی مہر و مشتری، ٦١)"]
[" زوردہ نارساں تکیہ گہ بیکساں! بادشہ ماورا تم پہ کروڑوں درود (١٩٠٧ء، حدائق بخشش، ١١:٢)"]
["\"یہ دنیا تاریک، غیر معلوم، بے شکل، غیر ممیز اور فہم و ادراک سے ماورا تھی۔\" (١٩٩٠ء، بھولی بسری کہانیاں، ٢)"]
ماورا کے مترادف
سوا
الٹرا, انتہاپسند, بالا, بجز, بَڑا, زیادہ, سوا
شاعری
- فرق
کہا اُس نے دیکھو‘
’’اگر یہ محبت ہے‘ جس کے دو شالے
میں لپٹے ہوئے ہم کئی منزلوں سے گزر آئے ہیں!
دھنک موسموں کے حوالے ہمارے بدن پہ لکھے ہیں!
کئی ذائقے ہیں‘
جو ہونٹوں سے چل کر لہُو کی روانی میں گُھل مِل گئے ہیں!
تو پھر اُس تعلق کو کیا نام دیں گے؟
جو جسموں کی تیز اور اندھی صدا پر رگوں میں مچلتا ہے
پَوروں میں جلتا ہے
اور ایک آتش فشاں کی طرح
اپنی حِدّت میں سب کچھ بہاتا ہُوا… سنسناتا ہُوا
راستوں میں فقط کُچھ نشاں چھوڑ جاتا ہے
(جن کو کوئی یاد رکھتا نہیں)
تو کیا یہ سبھی کچھ‘
اُنہی چند آتش مزاج اور بے نام لمحوں کا اک کھیل ہے؟
جو اَزل سے مری اور تری خواہشوں کا
انوکھا سا بندھن ہے… ایک ایسا بندھن
کہ جس میں نہ رسّی نہ زنجیر کوئی‘
مگر اِک گِرہ ہے‘
فقط اِک گِرہ ہے کہ لگتی ہے اور پھر
گِرہ در گِرہ یہ لہو کے خَلیّوں کو یُوں باندھتی ہے
کہ اَرض و سَما میں کشش کے تعلق کے جتنے مظاہر
نہاں اور عیاں ہیں‘
غلاموں کی صورت قطاروں میں آتے ہیں
نظریں جُھکائے ہوئے بیٹھ جاتے ہیں
اور اپنے رستوں پہ جاتے نہیں
بات کرتے نہیں‘
سر اُٹھاتے نہیں…‘‘
کہا میں نے‘ جاناں!
’’یہ سب کُچھ بجا ہے
ہمارے تعلق کے ہر راستے میں
بدن سنگِ منزل کی صورت کھڑا ہے!
ہوس اور محبت کا لہجہ ہے یکساں
کہ دونوں طرف سے بدن بولتا ہے!
بظاہر زمان و مکاں کے سفر میں
بدن ابتدا ہے‘ بدن انتہا ہے
مگر اس کے ہوتے… سبھی کُچھ کے ہوتے
کہیں بیچ میں وہ جو اِک فاصلہ ہے!
وہ کیا ہے!
مری جان‘ دیکھو
یہ موہوم سا فاصلہ ہی حقیقت میں
ساری کہانی کا اصلی سِرا ہے
(بدن تو فقط لوح کا حاشیہ ہے)
بدن کی حقیقت‘ محبت کے قصے کا صرف ایک حصہ ہے
اور اُس سے آگے
محبت میں جو کچھ ہے اُس کو سمجھنا
بدن کے تصّور سے ہی ماورا ہے
یہ اِک کیفیت ہے
جسے نام دینا تو ممکن نہیں ہے‘ سمجھنے کی خاطر بس اتنا سمجھ لو
زمیں زادگاں کے مقدر کا جب فیصلہ ہوگیا تھا
تو اپنے تحفظ‘ تشخص کی خاطر
ہر اک ذات کو ایک تالہ ملا تھا
وہ مخصوص تالہ‘ جو اک خاص نمبر پہ کُھلتا ہے لیکن
کسی اور نمبر سے ملتا نہیں
تجھے اور مجھے بھی یہ تالے ملے تھے
مگر فرق اتنا ہے دونوں کے کُھلنے کے نمبر وہی ہیں
اور ان نمبروں پہ ہمارے سوا
تیسرا کوئی بھی قفل کُھلتا نہیں
تری اور مری بات کے درمیاں
بس یہی فرق ہے!
ہوس اور محبت میں اے جانِ جاں
بس یہی فرق ہے!! - تیرا جلوہ‘ جلوہ لم یزل‘ ترا سلسلہ ہے وہ سلسلہ
جو ہر اک خیال سے ما سوا جو ہر اک نگاہ سے ماورا