مبادا کے معنی
مبادا کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ مَبا + دا }
تفصیلات
iفارسی زبان سے ماخوذ اسم ہے۔ اردو میں بطور متعلق فعل استعمال ہوتا ہے اور تحریراً ١٦٠٩ء کو "قطب مشتری" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["ایسا نہ ہو","خدا نہ کرے"]
اسم
متعلق فعل
مبادا کے معنی
١ - خدا نہ کرے، خدانخواستہ، دور یار؛ ایسا نہ ہو۔
"جس خیال خام میں تو مبتلا ہے . ذہن سے نکال دے۔ مبادا بادشاہ کو اس کی خبر ہو جائے۔" (١٩٩٤ء، صحیفہ، لاہور، اپریل، جون، ٣٧)
٢ - کبھی، کہیں، اتفاقاً۔ (جامع اللغات؛ علمی اردو لغت)۔
شاعری
- ہے قہر کی یہ آگ مبادا بھڑک اٹھے
دامن کو بچانا تو ذرا میرے لہو سے - مبادا حادثہ گر پیش آئے
بنے گا کچھ نہ پھر اپنا بنائے - دل دھڑکے ہے جو بجلی چمکے ہے سوئے گلشن
پہونچے مبادا میرے خاشاک آشیاں تک - خطرا یہی رہے ہے مبادا بگڑ نہ جائے
میں حد تنگ مزاج ہوں وو خانہ جنگ ہے - مبادا جھاڑ کے پنجے لپٹ جاوے کہیں وحشت
برے تیور نظر آتے ہیں مجکو اس سے دہشت ہے - اے آہ بچ نکل نہ کہیں دل تھلک پڑے
یہ جام بھر رہا ہے مبادا چھلک پڑے - اس سوں ہر گز نہ باندھ جی اپنا
کہ مبادا ہو دین بیچ خلل - تمھیں اور ہمیں ہور آنو اور کچھ
مبادا یکایک بدے شور کچھ - مبادا ہو کوئی ظالم ترا گریباں گیر
مرے لہو کو تو دامن سے دھو ہوا سو ہوا - چشم زخم آوے مبادا ناجی
کوچے میں اوس کے تو جاتا ہے عبث
محاورات
- من زو وضع زمانہ می ترسم کو مبادا ازیں بتر گردو