مجرا

{ مُج + را }

تفصیلات

iعربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ اردو میں بطور اسم ہی استعمال ہوتا ہے اور تحریراً ١٦٤٩ء کو "خاور نامہ" میں مستعمل ملتا ہے۔

["جری "," مُجْرا"]

اسم

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )

اقسام اسم

  • واحد غیر ندائی : مُجْرے[مُج + رے]
  • جمع : مُجْرے[مُج + رے]
  • جمع غیر ندائی : مُجْروں[مُج + روں (و مجہول)]

مجرا کے معنی

١ - حساب میں مہنا، کٹوتی، محسوب کیا جانا۔

"آٹھ روپے کی رقم پیشگی آنا چاہیے جو آخری دو جلدوں کی قیمت میں مجرا کر دی جائے گی۔" (١٩٨٤ء، ارمغان مجنوں، ٥٢٩:٢)

٢ - مودبانہ سلام، بندگی، آداب، تسلیمات، کورنش۔

"جب سلام کرنا ہو تو . آداب و تسلیمات بندگی اور مجرا بجا لاتے ہیں۔" (١٩٩٠ء، آب گم، ٣٢١)

٣ - ناچنا گانا، طبلے اور سارنگی وغیرہ کے ساتھ طوائف کا ناچنا گانا، ناچ گانا جو بطور اسلام امرا وغیرہ کے روبرو یا شادی بیاہ میں کیا جائے، ناچنے گانے والوں کا محفل میں بیٹھ کر گانا؛ رقص و سرود؛ آدھا ناچ، صرف صبح یا شام کا ناچ۔

"قوالیاں ہوں گی مجرے ہوں گے، نیازیں بٹیں کی۔" (١٩٨٩ء، غالب رائل پارک میں، ١٢٣)

٤ - وہ مرثیہ جو رباعی، غزل، قطعہ یا قصیدے کی طرز پر ہو اور اس کے مطلع یا اول شعر میں لفظ مجرا یا سلام لایا جائے۔

 ان کو مجرا تھے جو زیر آسماں بیٹھے ہوئے بھوکے پیاسے بے وطن بے جانماں بیٹھے ہوئے (١٨٩٢ء، مہتاب داغ، ٢٥٠)

٥ - باریابی، ملازمت، بادشاہوں یا امرا کو سلام۔

"اس میں میر محمد سوز صاحب کہ اوستاد جناب علی (نواب آصف الدولہ) کے تھے، واسطے مجرے کے حاضر ہوئے۔" (١٩٨٤ء، اسلوبیات میر، ٤٨)

٦ - ناچ گانے کا معاوضہ یا فیس، خدمت کا صلہ، انعام۔

"مجرے کا معاملہ طے کرنے میں وہ بڑی سخت تھی۔" (١٩٨٢ء، خدیجہ مستور، بوچھار، ٢٦)

٧ - ناچ یا گانے کا بلاوا۔ (ماخوذ: علمی اردو لغت)۔

٨ - بطور الاونس یا وظیفہ مقرر کیا گیا، وظیفہ، الاونس۔ (ماخوذ: پلیٹس)

مرکبات

مجرا گاہ