مخاطب کے معنی
مخاطب کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ مُخا + طِب }{ مُخا + طَب }
تفصیلات
iعربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم فاعل ہے۔ اردو میں بطور صفت استعمال ہوتا ہے اور تحریراً ١٨٥٤ء کو "دیوان ذوق" میں مستعمل ملتا ہے۔, iعربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ اردو میں بطور صفت استعمال ہوتا ہے اور تحریراً ١٨١٠ء کو "کلیات میر" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["باتیں کرنا کسی سے","(خاطَبَ ۔ باتیں کرنا کسی سے)","بات کرنے والا","خطاب (کرنا ہونا کے ساتھ)","خطاب کرنے والا","سامنے بولنے والا","عتاب کرنے والا","وہ جس سے بات کی جائے","وہ جس سے خطاب کیا جائے"]
خطب خَطاب مُخاطِب مُخاطَب
اسم
صفت ذاتی ( واحد )
اقسام اسم
- جمع : مُخاطِبین[مُخا + طِبین]
مخاطب کے معنی
"اس کا مخاطب رک گیا اور سر سے پیر تک سوال کرنے والا کا جائزہ لیا۔" (١٩٨٧ء، حصار، ١٠٧)
"گفتگو ایسے جچے تلے الفاظ میں کرتی تھیں کہ مخاطب ضرور اثر قبول کرتا تھا۔" (١٩٩٤ء، اردو نامہ، لاہور، اگست، ٢٧)
"رہنماؤں نے ہندومسلم فسادات کے مقتولین و مجروجین کو غنڈوں سے مخاطب کیا ہے۔" (١٩٣٤ء، شہید مغرب، ٥٢)
"ضمیر مخاطب یا حاضر . جس سے کلام کیا جائے مثلاً تو، تم، تیرا، تمہارا وغیرہ۔" (١٩٧١ء، جامع القواعد (حصہ صرف)، ٣٥٢)
مخاطب کے مترادف
متوجہ
متکلم, مقرر
مخاطب english meaning
addressifirst personperson addressedperson addressing anothersecond person (in grammar)speakerspeaker. [A~????]
شاعری
- تم مخاطب بھی ہو قریب بھی ہو
تم کو دیکھیں کہ تم سے بات کریں - حسرت ہے تجھے سامنے بیٹھے کبھی دیکھوں
میں تجھ سے مخاطب ہوں‘ ترا حال بھی پوچھوں - مخاطب اس کو ہی کرتے ہیں ارباب سخن سودا
کہ جس میں کچھ بھی عقل و ہوشکا آثار پیدا پو - مخاطب ہیں وہ نرگس سے چمن میں
جھکائے آنکھ ہم شرمارہے ہیں - وہ کلام سمدی جس کا مخاطب محبوب
انفح و ابلغ ودلدوز و بدیع الاسلوب
محاورات
- مخاطب ہونا