مٹی کے معنی

مٹی کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل

{ مِٹ + ٹی }

تفصیلات

iسنسکرت زبان کا لفظ "مرتکا" سے |مٹی| بنا۔ اردو میں بطور اسم اور صفت استعمال ہوتا ہے اور تحریراً ١٧٣٢ء کو "کربل کتھا" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["بالکسر زیادہ فصیح ہے","بے آب","بے رونق","چولھے بنانے کی سیاہ مٹی","صندل کی تہ جو عطر کے واسطے دی جاتی ہے","گیلی مِٹی","وہ خاک جو مردے پر اس کے رشتہ دار ڈالتے ہیں","کُرہ زمین","یکے از عناصر"]

مرتکا مِٹّی

اسم

صفت ذاتی ( واحد ), اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )

مٹی کے معنی

["١ - ٹھنڈا، سرد۔","٢ - میلا، گردآلود۔","٣ - برباد۔","٤ - بے رونق، بے کار، بے فائدہ، ہیچ۔","٥ - [ مجازا ] مردہ دل، افسردہ طبیعت۔ (نوراللغات؛ مہذب اللغات)"]

["\"ٹھنڈا مٹی کھانا یوں ہی انڈوں میں پڑا. تھا\" (١٩٩٠ء، تار عنکبوت، ٢٩)","\"تم نے دن بھر میں سب کپڑے مٹی کر دیئے\" (١٩٣١ء، نوراللغات، ٢٩٥:٤)"," طبیعت میں جو اس کے جوہر تھے اصلی ہوئے سب تھے مٹی میں مل کر وہ مٹی (١٨٧٩ء، مسدس حالی، ١٦)","\"مٹی ہے سلطنت جو ملے کائنات کی\" (١٨٧٤ء، انیس (نوراللغات))"]

["١ - زمین کی بالائی تہہ، وہ مادہ جو زمین پر بچھا ہوا ہے (مختلف مادوں کے باریک ذروں کا مرکب۔","٢ - عناصر اربعہ میں سے ایک عنصر۔","٣ - دنیا، کرۂ ارض، سنسار (فرہنگ آصفیہ، نوراللغات)","٤ - پنڈول نیز ملتانی۔","٥ - گیلی مٹی، گارا، کیچڑ، مکان بنانے کی چکنی مٹی۔","٦ - گندھی ہوئی مٹی جس سے برتن یا دوسری چیزیں بنائی جائیں۔","٧ - گرد، غبار، خاک، دھول، ریت، ریگ۔","٨ - راکھ، خاکستر، کشتہ، جیسے: پارے کی مٹی۔ (فرہنگ آصفیہ)","٩ - خمیر، سرشت، مادہ، عنصر، اصل۔","١٠ - لاش، نعش، میّت، جسم مردہ۔","١١ - کفن دفن، تجہیز و تکفین","١٢ - صندل کی تہہ جو عطر کے واسطے دی جاتی ہے","١٣ - پاخانہ، براز۔","١٤ - وہ تین تین مٹھی خاک جو مردے کو دفن کرنے کے بعد اس کی قبر میں تمام حاضرین ڈالتے ہیں\"","١٥ - گوشت، ماس، قلبہ۔ (فرہنگ آصفیہ)"]

["\"بہت ہی زرخیز مٹی ہے\" (١٩٩٠ء، چاندنی بیگم، ٧)","\"اس خدا کی قدرت کی نشانیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس نے تم لوگوں کو مٹی سے پیدا کیا\" (١٩٠٦ء الحقوق و الفرائض، ٢١٤:١)","\"فاطمہ نے تھوڑا آٹا خمیر کیا ہے کہ روٹی پکاوے تھوڑی مٹی بھگوئی\" (١٧٣٢، کربل کتھا، ٧٣)","\"اپنے گھر کو بغیر مٹی اور اینٹ او چونے اور گچ کے بناتی ہے\" (١٨١٠ء، اخوان الصفا (ترجمہ) ١٢٩)","\"اور گیلی مٹی کی ننھی ننھی ڈھیریاں بناتے رہتے ہیں\" (١٩٩٠ء، چاندنی بیگم،٧)","\"وکی میاں نے تھوڑی سی مٹی اٹھائی\" (١٩٩٠ء، چاندنی بیگم، ٢٨٤)","\"یہ بات میری مٹی میں نہیں ہے کہ چپ چاپ ظلم سہتی رہوں\" (١٩٩٣ء، افکار، کراچی، دسمبر، ٦٧)","\"آواز ہے تو آپ زندہ ہیں نہیں ہے تو آپ مٹی ہیں\" (١٩٨٩ء، قصے تیرے افسانے میرے، ٢٥٩)","\"اصل یہ ہے کہ تیری مٹی بے ریگ اور عمدہ ہے\" (١٩٧٤ء، فتوح الغیب، ٦١)","\"جلدی سے کنیزوں نے مٹی، خص، بانڑی گلاب کیوڑا بید مشک چھڑکا لخلخہ سنگھایا\" (١٨٩٦، لعل نامہ، ٢١٥:١)","\"کھایا پیا مٹی ہو گیا\" (١٩٠١ء، فرہنگ آصفیہ، ٢٨٦:٤)"," مٹی نہ پائی دست احیا کی یانصیب مارا فلک نے کر کے غریب الوطن مجھے (١٨٤٣ء، دیوان رند، ٢٧٥:٢)"]

شاعری

  • اس سفر میں دیکھ گل جاتا ہے مٹی کا بدن
    مجھ سے ملنے کی نہ خواہش کر نہ برساتوں میں آ
  • نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے
    ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی!
  • خواہش کا نام عشق تھا‘ نمائش کا نام حُسن
    اہلِ ہوس نے دونوں کی مٹی خراب کی
  • کسی کے دل میں گنجائش نہیں‘ وہ بارِ ہستی ہوں
    لحد کو بھی میری مٹی گراں معلوم ہوتی ہے
  • گردش ہی دینی تھی تو بنانا تھا جام مِے
    انساں بنا کے کیوں میری مٹی خراب کی
  • نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے
    ذرا نم ہو‘ تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی
  • یہ جو بے رنگ سی‘ بے آب سی آتی ہے نظر
    اِسی مٹی پہ پڑا کرتے تھے وہ نُور قدم
    جن کی آہٹ کا تسلسل ہے یہ سارا عالم
    جن کی خوشبو میں ہرے رہتے ہیں دل کے موسم
    جس کی حیرت سے بھرے رہتے ہیں خوابوں کے نگر

    وہ جو اِک تنگ سا رستہ ہے حرا کی جانب
    اُس کے پھیلاؤ میں کونین سمٹ جاتے ہیں
    آنکھ میں چاروں طرف رنگ سے لہراتے ہیں
    پاؤں خُود جس کی طرف کھنچتے چلتے جاتے ہیں
    یہی جادہ ہے جو جاتا ہے خُدا کی جانب

    کتنی صدیوں سے مسلط تھا کوئی شک مُجھ پر
    اپنے ہونے کی گواہی بھی نہیں ملتی تھی
    حبس ایسا تھا کوئی شاخ نہیں ہلتی تھی!
    اک کلی ایسی نہیں تھی جو نہیں کھلتی تھی
    جب کُھلی شانِ ’’رفعنا لک ذِکرک‘‘ مجھ پر

    آپ کا نقشِ قدم میرا سہارا بن جائے!
    بادِ رحمت کا اشارا ہو سفینے کی طرف
    وہ جو اِک راہ نکلتی ہے مدینے کی طرف
    اُس کی منزل کا نشاں ہو مِرے سینے کی طرف
    مرے رستے کا ہر اک سنگ ‘ ستارا بن جائے!!
  • (دلدار بھٹی کے لیے ایک نظم)

    کِس کا ہمدرد نہ تھا‘ دوست نہ تھا‘ یار نہ تھا
    وہ فقط میرا ہی دلدار نہ تھا

    قہقہے بانٹتا پھرتا تھا گلی کوچوں میں
    اپنی باتوں سے سبھی درد بُھلا دیتا تھا
    اُس کی جیبوں میں بھرے رہتے تھے سکّے‘ غم کے
    پھر بھی ہر بزم کو گُلزار بنا دیتا تھا

    ہر دُکھی دل کی تڑپ
    اُس کی آنکھوں کی لہو رنگ فضا میں گُھل کر
    اُس کی راتوں میں سُلگ اُٹھتی تھی

    میری اور اُس کی رفاقت کا سفر
    ایسے گُزرا ہے کہ اب سوچتا ہوں
    یہ جو پچیس برس
    آرزو رنگ ستاروں کی طرح لگتے تھے
    کیسے آنکھوں میں اُتر آئے ہیں آنسو بن کر!
    اُس کو روکے گی کسی قبر کی مٹی کیسے!
    وہ تو منظر میں بکھر جاتا تھا خُوشبو بن کر!
    اُس کا سینہ تھا مگر پیار کا دریا کوئی
    ہر دکھی روح کو سیراب کیے جاتا تھا
    نام کا اپنے بھرم اُس نے کچھ ایسے رکھا
    دلِ احباب کو مہتاب کیے جاتا تھا
    کوئی پھل دار شجر ہو سرِ راہے‘ جیسے
    کسی بدلے‘ کسی نسبت کا طلبگار نہ تھا
    اپنی نیکی کی مسّرت تھی‘ اثاثہ اُس کا
    اُس کو کچھ اہلِ تجارت سے سروکار نہ تھا

    کس کا ہمدرد نہ تھا‘ دوست نہ تھا‘ یار نہ تھا
    وہ فقط میرا ہی دلدار نہ تھا
  • پروین کے ’’گِیتو‘‘ کے لیے ایک نظم

    ہاں مری جان‘ مِرے چاند سے خواہر زادے!
    بُجھ گئیں آج وہ آنکھیں کہ جہاں
    تیرے سپنوں کے سِوا کُچھ بھی نہ رکھا اُس نے‘
    کِتنے خوابوں سے‘ سرابوں سے الُجھ کر گُزری
    تب کہیں تجھ کو‘ ترے پیار کو پایا اُس نے
    تو وہ ‘‘خُوشبو‘‘تھا کہ جس کی خاطر
    اُس نے اِس باغ کی ہر چیز سے ’’انکار‘‘ کیا
    دشتِ ’’صد برگ‘‘ میں وہ خُود سے رہی محوِ کلام
    اپنے رنگوں سے تری راہ کو گلزار کیا
    اے مِری بہن کے ہر خواب کی منزل ’’گِیتو‘‘
    رونقِ ’’ماہِ تمام‘‘
    سوگیا آج وہ اِک ذہن بھی مٹی کے تلے
    جس کی آواز میں مہتاب سفر کرتے تھے
    شاعری جس کی اثاثہ تھی جواں جذبوں کا
    جس کی توصیف سبھی اہلِ ہُنر کرتے تھے

    ہاں مِری جان‘ مِرے چاند سے خواہر زادے
    وہ جِسے قبر کی مٹّی میں دبا آئے ہیں
    وہ تری ماں ہی نہ تھی
    پُورے اِک عہد کا اعزاز تھی وہ
    جِس کے لہجے سے مہکتا تھا یہ منظر سارا
    ایسی آواز تھی وہ
    کِس کو معلوم تھا ’’خوشبو‘‘ کی سَفر میں جس کو
    مسئلہ پُھول کا بے چین کیے رکھتا ہے
    اپنے دامن میں لیے
    کُو بَکُو پھیلتی اِک بات شناسائی کی
    اِس نمائش گہ ہستی سے گُزر جائے گی
    دیکھتے دیکھتے مٹی مین اُتر جائے گی
    ایسے چُپ چاپ بِکھر جائے گی
  • اکیسیوں صدی کے لیے ایک نظم

    سَمے کے رستے میں بیٹھنے سے
    تو صرف چہروں پہ گرد جمتی ہے
    اور آنکھوں میں خواب مرتے ہیں
    جن کی لاشیں اُٹھانے والا کوئی نہیں ہے!

    ہماری قسمت کے زائچوں کو بنانے والا کوئی ہو شاید
    پران کا مطلب بتانے والا کوئی نہیں ہے!
    وہ سارے رسّے روایتوں کے کہ جن کی گرہیں کَسی ہوئی ہیں
    ہمارے ہاتھوں سے اور پاؤں سے لے کے خوابوں کی گردنوں تک!
    ہماری رُوحوں میں کُھبتے جاتے ہیں
    اور ہم کو بچانے والا‘ چھڑانے و‌الا کوئی نہیں ہےِ
    زباں پہ زنجیر سی پڑی ہے
    دلوں میں پھندے ہیں
    اور آنکھوں میں شامِ زنداں کی بے کَسی ہے
    چراغ سارے بجھے پڑے ہیں جلانے والا کوئی نہیں ہے!

    مرے عزیزو‘ مجھے یہ غم ہے
    جو ہوچکا ہے بہت ہی کم ہے
    سَمے کے رَستے میں بیٹھے رہنے کے دن بھی اَب ختم ہورہے ہیں
    بچے کھُچے یہ جو بال و پَر ہیں
    جو راکھ داں میں سُلگنے والے یہ کچھ شرر ہیں
    ہمارے بچّوں کے سر چھپانے کو جو یہ گھر ہیں
    اب ان کی باری بھی آرہی ہے
    وہ ایک مہلت جو آخری تھی
    وہ جارہی ہے…
    تو اس سے پہلے ‌زمین کھائے
    ہمارے جسموں کو اور خوابوں کو
    اور چہروں پہ اپنے دامن کی اوٹ کردے
    یہ سرد مٹی جو بُھربُھری ہے
    ہماری آنکھوں کےزرد حلقے لہُو سے بھردے!

    مرے عزیزو چلو کہ آنکھوں کو مَل کے دیکھیں
    کہاں سے سُورج نکل رہے ہیں!
    سمے کے رستے پہ چل کے دیکھیں

محاورات

  • آبرو دار کی مٹی خراب
  • ابرے کی بھینس بیائل سگرو گاؤں مٹیالے ڈھائل
  • انجان کی مٹی خراب
  • اکتائی کمھارن ناخن سے مٹی کھودے
  • اکتائی کمہاری ناخن سے مٹی کھودے
  • اینٹ ‌کا ‌گھر ‌مٹی ‌ہونا
  • اینٹ کا گھر مٹی کا در
  • اینٹ کا گھر مٹی کادر
  • اینٹ کا گھر مٹی کردینا
  • بدن مٹی ہونا

Related Words of "مٹی":