میٹر[1]
{ می + ٹَر }
تفصیلات
iانگریزی زبان سے دخیل کلمہ ہے جو اردو میں اپنے اصل معنی کے ساتھ عربی رسم الخط میں بطور اسم استعمال ہے۔ تحریراً سب سے پہلے ١٩٠٦ء کو "مخزن" میں مستعمل ملتا ہے۔
["Meter "," مِیٹَر"]
اسم
اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
اقسام اسم
- جمع استثنائی : مِیٹَرز[می + ٹَرْز]
- جمع غیر ندائی : مِیٹَروں[می + ٹَروں (و مجہول)]
میٹر[1] کے معنی
١ - پیمائش کا آلہ خاص طور پر وہ جو گیس بجلی وغیرہ کی خرچ ہونے یا اس میں سے گزرنے والی مقدار کو ازخود رقم اور محفوظ کرتا ہے، شمار کرنے کا آلہ؛ عداد۔
"ارے بجلی کا میٹر اور کیسا میٹر. میں نے کار کی کنجیاں اس میں چھپا رکھی تھیں۔" (١٩٨٧ء، گردشِ رنگ چمن، ٦٣)
٢ - ٹیکسیوں، رکشاؤں وغیرہ میں فاصلے کے مطابق کرائے کا بتانے والا آلہ۔
"بائی دی وے یہ میٹر تو چلا دیں اس غریب کا پٹرول خرچ ہو رہا ہے۔" (١٩٩٠ء، اپنے لوگ، ٢٤١)
٣ - لکڑی یا لوہے وغیرہ کی سلاخ، سارنگی کا گز۔
"میں حیران تھا کہ سارنگی کی میٹر اور طبلے کی ٹکور جسم کے نظام حرکی پر کس قدر اثر انداز ہوتی ہے۔" (١٩٧٣ء، جہانِ دانش، ٢١١)
مرکبات
میٹر ریڈر, میٹر ریڈنگ