نذر
{ نَذَر }
تفصیلات
iبطور اسم نیز متعلق فعل استعمال ہوتا ہے۔ اردو میں سب سے پہلے ١٦٦٥ء کو اردو میں "علی نامہ" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔
[""]
اسم
اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
اقسام اسم
- جمع : نَذْریں[نَذ + ریں (ی مجہول)]
- جمع غیر ندائی : نَذْروں[نَذْ + روں (و مجہول)]
نذر کے معنی
"نذر، چڑھاوا، خصوصاً وہ نذر جو رعایا اپنے بادشاہ (Oblata) کو دیتی ہے" (١٩٨٧ء، کشاف، قانونی اصطلاحات، ١٠٧٢:٢)
"مقالات کے اہم نکات، خلاصے کے طور پر نذرِ سامعین کئے" (١٩٩٣ء، نگار، کراچی، جنوری، ٢٢۔)
"سارے علاقے میں تہلکہ پڑ گیا لوگ اضافۂ لگان سے بچنے کے لیے انہیں نذریں پیش کرنے لگے" (١٩٢٢ء، گوشۂ عافیت، ٨٠:١)
"میں نے جو کچھ کہا اپنے ضمیر کے مطابق کہا اس لیے نذر قبول نہیں کر سکتا" (١٩٨٤ء، طوبٰی، ٢٣٨)
ہے جوشِ وفا عمر کے پیمانے بھرے ہیں ہم صبح سے سر نذر کو ہاتھوں پر دھرے ہیں (١٨٧٤ء، انیس، مراثی، ٩٩:١)
"زندگی کا کچھ حصہ تو حصول علم کی نذر ہو جاتا ہے اور کچھ حصولِ زر کی نذر" (١٩٩٩ء، آئیڈیل منافق، ٨٤۔)
"اس زمانے میں قربانی (نذر) کی قبولیت کا یہ الہامی دستور تھا کہ نذر و قربانی کی چیز کسی بلند جگہ پر رکھ دی جاتی تھی اور آسمان سے آگ نمودار ہو کر اس کو جلا دیتی تھی" (١٩٨٨ء، انبیائے قرآن، ٤۔)
"اور ہاں قیصر پہلی تنخواہ ملے تو بڑے پیر صاحب کی نیاز ضرور دلوائیو" (١٩٩٠ء، تار عنکبوت، ٣٦۔)
"یہ لوگ جس کام کی اللہ کے لیے (نذر) منت مان لیتے ہیں اس کو پورا کرتے ہیں" (١٩٧٢ء، معارف القرآن، ٦٣٧:٨)
"خوشی خوشی اشرفی نذرے گیا" (١٨٨٣ء، دربارِ اکبری، ٥٤٨)
مرکبات
نذر مطلق, نذر معلق, نذر معین, نذر نثار, نذر و نیاز, نذر ہے, نذر خدا, نذر درگاہ, نذر دستی, نذر گزاری, نذر محقر, نذر اجل, نذر امام, نذر آئمہ, نذر آتش
انگلش
["a vow; an offering","anything offered or dedicated; a gift or present (from an inferior to a superior); a fee paid to the state or to its representative on succeeding to an office or to property; an interview"]