نرمی
{ نَر + می }
تفصیلات
iفارسی سے اردو میں دخیل اسم صفت |نرم| کے ساتھ فارسی قاعدے کے تحت |می| بطور لاحقہ کیفتی و اہمیت بڑھانے سے |نرمی| بنا۔ اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے اور سب سے پہلے ١٦٦٥ء کو "پھول بن" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔
["نَرْم "," نَرْمی"]
اسم
اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
نرمی کے معنی
"وہ ایک مخصوص نظریہ رکھتے ہیں اور ہر بات بڑی نرمی، ملائمیت، خلوص اور دردمندی کے ساتھ کہتے ہیں" (١٩٩٧ء، کہتے ہیں تجھے (انتصنداں)، ١٧١۔)
"یہی سوچتے ہوئے میں نے نرمی سے کہا" (١٩٨٢ء، بند لبوں کی چیخ، ١٢٩۔)
وحشی آندھی سے بادل کی ناؤ یہ کہتی ہے دیکھو گہری ندی کس نرمی سے بہتی ہے۔ (١٩٧٩ء، جزیرہ، ٥٨۔)
کبھی تو نے گالوں کی نرمی دکھائی لچک تو نے پتلی کمر کی دکھلائی (١٩٧٥ء، موجف تبسم، ٤٨٨۔)
"آپۖ نے فرمایاجو آدمی نرمی کی صفت سے محروم کیا گیا وہ سارے خیر سے محروم کیا گیا" (١٩٨٩ء، سیرۃ النبی اور ہماری زندگی، ٢٨٢۔)
"ان کی آنکھوں میں ایسی نرمی تھی کہ تمام تاثرات ہی بدل گئے" (١٩٨٩ء، یہ لوگ بھی غضب تھے، ١٦۔)
سلام ان پر ہے جن کے عزم کی سورج میں گرمی رُخِ گل پر محبت جن کی ہے شبنم کی نرمی (١٩٩٣ء، زمزمۂ اسلام، ١٥٤۔)
اک چھوٹی سی دنیا جس کے دُکھ سُکھ بھی چھوٹے چھوٹے کچھ سختی میں کچھ نرمی میں ان کے دن کٹ جاتے تھے (١٩٦٢ء، لاحاصل، ٥٣۔)
"طبیعت کی نرمی، تحمل اور ان کے قلب کی وسعت کا اندازہ کر لیجیے۔ (١٩٨٦ء، دلی والے، ٣٠:٢۔)
"درد کے مزاج کی سادگی، پاکیزگی اور نرمی ان کی زبان میں صاف عیاں ہے" (١٩٩٥ء، نگار، کراچی، اپریل، ٤٠۔)
"اب اس کی طبیعت میں نرمی دیکھیں اور مزاج خوش باتیں تو بن یامن کی درخواست کریں" (١٩٧٢ء، معارف القرآن، ١٢١:٥۔)
مترادف
رطوبت, رقت, رسائی, سلاست, لطافت, سہولت, ملائمت
مرکبات
نرمی سے, نرمی والا
انگلش
["softness","smoothness","sleekness; pliancy; tenderness; delicacy; gentleness","mildness; want of firmness; tameness; cringing","fawning","sycophancy; remission","abatement","reduction; easiness; fluency"]