نسل
{ نَسْل }
تفصیلات
iعربی سے اسم جامد ہے۔ عربی سے من و عن اردو داخل ہوا اور بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ اردو میں سب سے پہلے ١٥٦٤ء کو "دیوانِ حسن شوقی" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔
[""]
اسم
اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
اقسام اسم
- جمع : نَسْلیں[نَس + لیں (ی مجہول)]
- جمع غیر ندائی : نَسْلوں[نَس + لوں (و مجہول)]
نسل کے معنی
ہونے کو ہے اب نسل ہی صّیاد کی غارت اے مرغِ گرفتار مبارک یہ بشارت (١٩٤٢ء، سنگ و خشت، ٦٩)
"آم خواہ کسی بھی نسل کا ہو آم ہی کہلاتا ہے۔" (١٩٩٣ء، افکار، کراچی، ستمبر، ٥٨)
"ایک نسل کے بعد دوسری نسل انتقال کے لیے بات بات پر جھگڑے ہوتے۔" (١٩٨٨ء، انبیائے قرآن، ٣٦٢)
"پالتوں حیوانات چاہے وہ زراعت کے لیے ہوں یا چاہے نمائشی ان سب کو پیڑھی بانس کہتے ہیں۔" (١٩٧١ء، جینیات، ٨٢١)
"تو ہماری نسل کا آدمی ہے اپنی طرف آ۔" (١٩٩٨ء، ارمغان حالی، جمیل الدین عالی، فن اور شخصیت، ٥٤٧)
انگلش
["A boat; a ship","vessel; (Prob. through the Persian) anything long and hollow; a pipe","tube; a trough"]