نکلا کے معنی

نکلا کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل

{ نِک + لا }

تفصیلات

١ - ظاہر ہوا، ثابت ہوا، نکلتا کا ماضی، تراکیب میں مستعمل۔, m["نکلنا کی ماضی"]

اسم

اسم نکرہ

نکلا کے معنی

١ - ظاہر ہوا، ثابت ہوا، نکلتا کا ماضی، تراکیب میں مستعمل۔

نکلا کے جملے اور مرکبات

نکلاہوا

شاعری

  • مہر کی تجھ سے توقع تھی ستم گر نکلا
    موم سمجھے تھے ترے دل کو سو پتھر نکلا
  • داغ ہوں رشکِ محبت سے کہ اتنا بے تاب
    کس کی تسکیں کے لیے گھر سے تو باہر نکلا
  • نہ نکلا کر اتنا بھی بے پردہ گھر سے
    بہت اس میں ظالم تو بدنام ہوگا!
  • مہر کی تجھ سے توقع ستمگر نکلا
    موم سمجھے تھے ترے دل کو سو پتھر نکلا
  • جیتے جی آہ ترے کوچے سے کوئی نہ پھرا
    جو ستم دیدہ رہا جا کے سو مر کر نکلا
  • دل کی آبادی کی اس حد ہے خرابی کہ نہ پوچھ
    جانا جاتا ہے اس راہ سے لشکر نکلا
  • اشکِ تر‘ قطرۂ خوں‘ لختِ جگر‘ پارہ دل
    ایک سے ایک عدد آنکھ سے بہ کر نکلا
  • کنج کادی جو کی سینے کی غم ہجراں نے
    اس دفینے میں سے اقسامِ جواہر نکلا
  • ہم نے جانا تھا لکھے گا تو کوئی حرف اے میر
    پر ترا نامہ تو اک شوق کا دفتر نکلا
  • کس مرتبہ تھی حسرتِ دیدار مرے ساتھ
    جو پھول مری خاک سے نکلا نگراں تھا

محاورات

  • آج کدھر آنکلے یا بھول پڑے۔ آج کدھر کا چاند نکلا۔ آج کدھر سے خورشید نکلا
  • آج کدھر کا چاند نکلا
  • املی کی جڑ سے نکلا پتنگ (کی طرح)
  • ایک تو یونہی نام نکلا ہوا ہے اب اور نکلے گا
  • بھاڑ سے نکلا بھاڑ میں گرا
  • توند کا دورہ نکلا ہونا
  • جامے سے نکلا پڑنا
  • چاند کدھر سے نکلا
  • چولھے سے نکلا کڑاہی میں گرا
  • چولہے سے نکلا کڑاہی میں گرا

Related Words of "نکلا":