وفور کے معنی
وفور کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ وُفُور }
تفصیلات
١ - وافر ہونا، بہتات، زیادتی۔, m["بھرجانا","افراط جیسے وفورِ شوق","بھرا ہوا","بے انتہا","عام (وفر ک جمع)","وافر ہونا"]
اسم
صفت ذاتی
وفور کے معنی
١ - وافر ہونا، بہتات، زیادتی۔
وفور کے مترادف
کثرت
افراط, افزونی, بہت, بہتات, بیشی, پر, پورا, زیادت, زیادتی, فراوانی, مکمل, وَفَرَ, کثرت
شاعری
- ہَوا بُرد
مِرے ہم سَفر
مِرے جسم و جاں کے ہر ایک رشتے سے معتبر‘ مرے ہم سَفر
تجھے یاد ہیں! تجھے یاد ہیں!
وہ جو قربتوں کے سُرور میں
تری آرزو کے حصار میں
مِری خواہشوں کے وفور میں
کئی ذائقے تھے گُھلے ہُوئے
درِ گلستاں سے بہار تک
وہ جو راستے تھے‘ کُھلے ہُوئے!
سرِ لوحِ جاں‘
کسی اجنبی سی زبان کے
وہ جو خُوشنما سے حروف تھے!
وہ جو سرخوشی کا غبار سا تھا چہار سُو
جہاں ایک دُوجے کے رُوبرو
ہمیں اپنی رُوحوں میں پھیلتی کسی نغمگی کی خبر ملی
کِسی روشنی کی نظر ملی‘
ہمیں روشنی کی نظر ملی تو جو ریزہ ریزہ سے عکس تھے
وہ بہم ہُوئے
وہ بہم ہُوئے تو پتہ چلا
کہ جو آگ سی ہے شرر فشاں مِری خاک میں
اُسی آگ کا
کوئی اَن بُجھا سا نشان ہے‘ تری خاک میں!
اسی خاکداں میں وہ خواب ہے
جسے شکل دینے کے واسطے
یہ جو شش جہات کا کھیل ہے یہ رواں ہُوا
اسی روشنی سے ’’مکاں‘‘ بنا‘ اسی روشنی سے ’’زماں‘‘ ہُوا
یہ جو ہر گُماں کا یقین ہے!
وہ جو ہر یقیں کا گمان تھا!
اسی داستاں کا بیان تھا! - آگ برساتی ہیں آہیں جب وفور گریہ ہو
یوں تو ہوتی ہے رطوبت زا ہوا برسات میں - وفور فیض سے بدخواہ بھی نہ ہو محروم
زبان تیغ سے چاٹے لعاب ہر دشمن - وفور آب سے نہریں رواں ہےں دیہ بہ دیہ
زمین شور میں کیا لہلہا رہی ہے خوید - وفور نور چراغان و شمع کا فوری
ہے رشک چرخ مقرنس ہر ایک رات مدام - اب کی وفور عشق صنم میں ہے گفتگو
مومن وہ لب پہ جائے خدایا نہیں ہنوز - شگفتہ ہووے گل اشرفی سے داودی
جہاں تہاں گل مہتاب کا ہے اب یہ وفور - نمود خط نے سجھائی ہے راہ روپوشی
وفور حسن اسے بے حجاب رکھتا تھا - وفور اشک نے کاشا نے کیا کیا یہ رنگ
کہ ہو گئے مرے دیوار و در‘ در و دیوار - وفور نگہت گل یہ رطوبت افزا ہے
کہ عندلیب کو گلشن میں ہوگیا نزلا