ٹھیس کے معنی
ٹھیس کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ ٹھیس (یائے مجہول) }
تفصیلات
iہندی زبان میں بطور اسم مستعمل ہے اردو میں ہندی سے ماخوذ ہے اور اصلی حالت اور اصل معنی میں ہی عربی رسم الخط کے ساتھ اردو زبان میں بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٦٨٢ء میں "رضوان شاہ و روح افزا" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["صدمہ خفیف","صدمۂ خفیف","ضرب خفیف","ٹکر ضرب","ہلکی چوٹ"]
اسم
اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
اقسام اسم
- جمع : ٹھیسیں[ٹھے + سیں (یائے مجہول)]
- جمع غیر ندائی : ٹھیسوں[ٹھے + سوں (واؤ مجہول)]
ٹھیس کے معنی
"جذبات گویا اس طرح واقع ہیں کہ ذرا سی ٹھیس سے فطرت حیوانی یا فطرت روحانی کی طرف مائل ہو سکتے ہیں۔" (١٩٣١ء، مقدمات عبدالحق، ٧٠:١)
ٹھیس english meaning
knockblow; thrustpushshore; striking the foot (against an obstacletripping (against)blowshock
شاعری
- خیالِ خاطرِ احباب چاہیئے ہر دم
انیس ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو - دلِ بے حوصلہ ہے اِک ذرا سی ٹھیس کا مہماں
وہ آنسو کیا پئے گا‘ جس کو غم کھانا نہیں آتا - پہروں ہی تڑپا ٹھیس اگر بات کی لگی
لوٹن مو اہے دل یہ کبوتر ہمارے پاس - ذرا سی ٹھیس لگ جانے سے چکنا چور ہوتا ہے
یہ سیکھا ہے کہاں سے دل نے یارب ڈھنگ شیشے کا - دل مرا دکھیا رہا کاسہ چینی کی طرح
مو برابر ٹھیس لگتی ہے تو کرتا ہوں فغاں - پہروں تڑپے بات کی جو ٹھیس لگ جائے ذرا
ان دنوں دل باز خاں لوٹن کبوتر ہوگیا - دل بے حوصلہ ہے اک ذراسی ٹھیس کا مہمان
وہ آنسو کیا پئے گا جس کو غم کھانا نہیں آتا - بچّھو ہور کانٹیاں میں کچ، غم نہ تھا
چھلی ٹھیس کا بھی او دکھ کم نہ تھا - اس دل کو الٰہی کہیں آسیب نہ پہنچے
میں ٹھیس سے ڈرتا ہوں کہ شیشے میں پری ہے - لو جو شیشہ دل کا لیتے ہو پر اپنا ہے کہ شوخ
ایک ذرّہ ٹھیس اسے لاگے تو چکنا چور ہے
محاورات
- بات کی ٹھیس لگنا
- پکا پھوڑا تھا جو ٹھیس لگتے ہی پھوٹ پڑا۔ پکا پھوڑا ٹھیس لگی اور پھوٹا
- پکا پھوڑا‘ ٹھیس لگی اور پھوٹا
- شیشئہ دل ٹھیس لگنا چور کرنا(متعدی)ہونا
- شیشہ دل ٹھیس لگنا
- ٹھیس لگے بدھ بڑھے