پروردگار کے معنی

پروردگار کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل

{ پَر + وَر + دِگار }

تفصیلات

iفارسی میں مصدر|پروردن| سے مشتق صیغہ ماضی مطلق واحد غائب |پرورد| کے ساتھ لاحقہ صفت |گار| ملنے سے |پروردگار| بنا۔ فارسی سے اردو میں داخل ہوا اور بطور اسم مستعمل ہے۔ سب سے پہلے ١٦١١ء کو |کلیات قلی قطب شاہ" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["پالن ہا","پالن ہار","پالنے والا","پرورش کرنے والا","خدا تعالٰی","خدا تعالٰے","خدائے تعالیٰ","ربُّ النوع"]

پروردن پَرْوَرْدِگار

اسم

اسم معرفہ ( مذکر - واحد )

پروردگار کے معنی

١ - پالنے والا، رب، اللہ، خدا۔

 مجھ سا نہ دے زمانے کو پروردگار دل آشفتہ دل، فریفتہ دل، بیقرار دل (١٨٧٨ء، گلزار داغ، ١٢١)

٢ - [ مجازا ] موجد، بانی۔

|بیدل نئی ترکیبوں اور نئے اسالیب کا پروردگار ہے۔" (١٩٥٩ء، پردیسی کے خطوط، ١٤٢)

پروردگار کے مترادف

رام[2]

رب

پروردگار english meaning

the cherisher; the providerprovidence; an epithet of the Deitya porcupinean epithel of the DeityprovidenceThe cherisher

شاعری

  • اک فرصتِ گناہ ملی وہ بھی چار دن
    دیکھے ہیں ہم نے حوصلے پروردگار کے
  • زندہ رہی تو نام بھی لوں گی نہ پیار کا
    سوگند ہے مجھے مرے پروردگار کی
  • خزاں کی شام کو صبحِ بہار تُونے کیا
    مِرے خُدا‘ مِرے پروردگار تُونے کیا
  • خداوند شاہنشہ برقرار
    وہ سجان سب کا ہے پروردگار
  • عدل بہت ہو خوک سبہ مار ڈار
    محبت بہت ہوئے پروردگار
  • تیری یہ ضد ہے گنبد لیل و نہار میں
    یا حرف کن ہے خاطر پروردگار میں
  • لاریب فیہ مصحف پروردگار ہے
    واضح یہ ہے کہ جلد سے خلط آشکار ہے
  • عجب وہ صاحب قدرت ہے جس نے جگ سنبھارا ہے
    خدا ہی پاک و مولا ہے وہی پروردگار ہے
  • سٹیا پاؤں دہلیز میں ناپکار
    لیا جیو اس کا سو پروردگار
  • پروردگار کس سے کریں عرضِ حالِ دل
    ملتا نہیں دماغ بُتِ پرُ غرور کا

محاورات

  • تکیہ پروردگار پر ہونا
  • سوتا سنسار‘ جاگتا پروردگار

Related Words of "پروردگار":