پچیس کے معنی
پچیس کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ پَچ + چِیس }
تفصیلات
iسنسکرت میں صفت |پنچ وِ نشت| سے ماخوذ |پچیس| اردو میں بطور صفت مستعمل ہے۔ سب سے پہلے ١٦٩٧ء میں |دیوانِ ہاشمی" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["پنج","وِشت","بست و پنج","بیس اور پانچ کا مجموعہ","پانچ اوپر بیس"]
پنچوِنَشت پَچِّیس
اسم
صفت عددی
پچیس کے معنی
١ - بیس اور پانچ، تیس سے پانچ کم، (ہندسوں میں) 25۔
|راہ گیر کی عمر پچیس سال سے کچھ زیادہ ہی ہو گی۔" (١٩٢٦ء، شرر، درگیش نندنی، ٥)
پچیس کے جملے اور مرکبات
پچیس گنا
پچیس english meaning
Twenty-fiveto conquerto get the upper handto overcometo overpowertwenty-five
شاعری
- (دلدار بھٹی کے لیے ایک نظم)
کِس کا ہمدرد نہ تھا‘ دوست نہ تھا‘ یار نہ تھا
وہ فقط میرا ہی دلدار نہ تھا
قہقہے بانٹتا پھرتا تھا گلی کوچوں میں
اپنی باتوں سے سبھی درد بُھلا دیتا تھا
اُس کی جیبوں میں بھرے رہتے تھے سکّے‘ غم کے
پھر بھی ہر بزم کو گُلزار بنا دیتا تھا
ہر دُکھی دل کی تڑپ
اُس کی آنکھوں کی لہو رنگ فضا میں گُھل کر
اُس کی راتوں میں سُلگ اُٹھتی تھی
میری اور اُس کی رفاقت کا سفر
ایسے گُزرا ہے کہ اب سوچتا ہوں
یہ جو پچیس برس
آرزو رنگ ستاروں کی طرح لگتے تھے
کیسے آنکھوں میں اُتر آئے ہیں آنسو بن کر!
اُس کو روکے گی کسی قبر کی مٹی کیسے!
وہ تو منظر میں بکھر جاتا تھا خُوشبو بن کر!
اُس کا سینہ تھا مگر پیار کا دریا کوئی
ہر دکھی روح کو سیراب کیے جاتا تھا
نام کا اپنے بھرم اُس نے کچھ ایسے رکھا
دلِ احباب کو مہتاب کیے جاتا تھا
کوئی پھل دار شجر ہو سرِ راہے‘ جیسے
کسی بدلے‘ کسی نسبت کا طلبگار نہ تھا
اپنی نیکی کی مسّرت تھی‘ اثاثہ اُس کا
اُس کو کچھ اہلِ تجارت سے سروکار نہ تھا
کس کا ہمدرد نہ تھا‘ دوست نہ تھا‘ یار نہ تھا
وہ فقط میرا ہی دلدار نہ تھا - جوبے ربط بولے توں بیتاں پچیس
بھلا ہے جو یک بیہت بولے سلیس - شطرنج گنجفہ نر دنت تیوڑی پچیس ست گھڑے
لے کر سہیلیاں کھیلتی جو دیکھنا تو جفت طاق - آگے جو بنایا تو بکا تیس روپے سیر
اور گہکی گئے لے اسے پچیس روپے میر
محاورات
- بیس پچیس کے اندر میں جو پوت سپوت ہوا سو ہوا۔ مات پتا کلتارن کو جوگیا نہ گیا سو کہیں نہ گیا
- دھن کے پندرہ مکر کے پچیس چلے کہ یہ دن چالیس