ڈوبا کے معنی
ڈوبا کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ ڈُو + با }
تفصیلات
iسنسکرت سے ماخوذ اردو مصدر |ڈوبنا| سے مشتق صیغہ ماضی مطلق ہے جوکہ بطور اسم صفت بھی مستعمل ہے۔ ١٨٧٣ء کو "مطلع العجائب" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["(امر) ڈوبانا کا","(ماضی) ڈوبنا کا","پانی کے نیچے","قلم کو ایک بار سیاہی میں ڈبونا (بھرنا لینا کے ساتھ)","نشیب کی زمین جو پانی میں ڈوبی رہے","ڈوبا ہوا آدمی","ڈوبانا کا","ڈوبنا کا","کویا ہوا","کھویا ہوا"]
ڈوبنا ڈُوبا
اسم
صفت ذاتی ( مذکر - واحد )
اقسام اسم
- جمع : ڈُوبے[ڈُو + بے]
- جمع ندائی : ڈُوبے[ڈُو + بے]
ڈوبا کے معنی
"اللہ اللہ موت . ایک ناپیدا کنار سمندر ہے کہ جس کے ڈوبے کا پتا نہیں۔" (١٨٨٩ء، رسالہ حسن، ستمبر، ٢٣:٢)
ڈوبا english meaning
(be) almost equal(be) slightly different(is) in no way inferiorconcealeddipping of pen in inkpot to draw ink ; diphiddeninvincibleout of sight
شاعری
- سطح پر خاموشیوں کی گونج ہے نوحہ کناں
اپنی گہرائی کے دریا میں جو ڈوبا کون تھا - اپنے ماضی کا سمندر چھانیے
اِک خزانہ ہے یہاں ڈوبا ہُوا - میںیہاں دھوپ میں تپ رہا ہوں مگر
وہ پسینے میں ڈوبا ہوا کون ہے - دل اٹکا اور روئے ناک میں دم اب میرا ہے
آپ جو یہ ڈوبا تو ڈوبا اور کو بھی لے ڈوبا ہے - ڈوبا وہ مسافر جو قریں گھاٹ کے اترا
پانی وہ کہ اترا تو گلا کاٹ کے اترا - حضرت کے پیچھے اسپ عملدار مہ جبیں
باگیں کٹی تھیں‘ خون میں ڈوبا ہوا تھا زیں - جس سے کل کون میں ڈوبا قفس اے مرغ اسیر
تونے پھر آج وہی زمزمہ بنیاد کیا - کر دیا تھا جس کو گنگا پار کلی کی بات پر
آج وہ ڈوبا سنا اے یار کل کی بات پر - ڈوبا کیا جہاز پہ لنگر نہ اٹھ سکا
دہشت سے کافروں کا کبھی سر نہ اٹھ سکا - تیری رفعت سے جویہ حیرت میں ہے ڈوبا ہوا
جانتی ہے مہر کو اک مہرہ ششدر زمیں
محاورات
- آپ ڈوبے تو جگ ڈوبا
- آپ ڈوبے تو جگ ڈوبا(پرلو)
- ایک ڈوبے تو جگ سمجھائے یہاں تو سب جگ ڈوبا جائے
- ایک ڈوبے تو جگ سمجھائے۔ یہاں تو جگ ہی ڈوبا ہے
- حساب جیوں کا تیوں کنبا ڈوبا کیوں
- دریائے آہن میں ڈوبا ہونا
- دل ڈوبا جانا یا ڈوبنا
- گاؤں ڈوبا جائے سوانے کی لڑائی
- لوہے میں ڈوبا ہونا
- میں تو ڈوبا تجھ کو بھی لے ڈوبوں گا