ڈوبتا کے معنی
ڈوبتا کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ ڈُوب + تا }
تفصیلات
١ - وہ جو ڈوب رہا ہو، غروب ہوتا ہوا۔, m["غرق ہونے والا","وہ آدمی جو ڈوب رہا ہو","ڈوبنے والا"]
اسم
صفت ذاتی
ڈوبتا کے معنی
١ - وہ جو ڈوب رہا ہو، غروب ہوتا ہوا۔
شاعری
- تُو نے کہا تو تھا کہ میں کشتی پہ بوجھ ہوں
آنکھوں کو اب نہ ڈھانپ مجھے ڈوبتا بھی دیکھ - کوئی ڈوبتا ستارا‘ جو کبھی فلک سے ٹوٹا
دل غم نصیب سمجھا کہ سحر کی روشنی ہے - ہم ایک دُوجے سے ملتے تو کس طرح ملتے!
زمیں پہ آگ تھی تارے لہُو میں لتھڑے تھے
ہَوا کے ہاتھ میں خنجر تھا اور پُھولوں کی
پھٹی پھٹی ہُوئی آنکھوں میں ایک دہشت تھی
ارادے ٹوٹتے جاتے تھے اور اُمیدیں
حصارِ دشت میں ‘ بکھری تھیں اِس طرح‘ جیسے
نشان‘ بھٹکے ہُوئے قافلوں کے رہ جائیں
ہمارے پاس سے لمحے گَزرتے جاتے تھے
کبھی یقین کی صورت ‘ کبھی گُماں کی طرح
اُبھرتا‘ ڈوبتا جاتا تھا وسوسوں میں دِل
ہوائے تند میں کشتی کے بادباں کی طرح
عجیب خوف کا منظر ہمارے دھیان میں تھا
سروں پہ دُھوپ تھی اور مہر سائبان میں تھا
چراغ بُجھتے تھے لیکن دُھواں نہ دیتے تھے
نہیں تھی رات مگر رَت جگا مکان میں تھا!
حروف بھیگے ہُوئے کاغذوں پہ پھیلے تھے
تھا اپنا ذکر‘ مگر اجنبی زبان میں تھا
نظر پہ دُھند کا پہرا تھا اور آئینہ
کسی کے عکسِ فسوں ساز کے گُمان میں تھا
ہم ایک راہ پہ چلتے تو کس طرح چلتے!
تری زمیں کسی اور ہی مدار میں تھی
مِرا ستارا کسی اور آسمان میں تھا
ہم ایک دُوجے سے ملتے تو کس طرح ملتے!
سَمے کا تیز سمندر جو درمیان میں تھا - آسمانوں کو ہم نے بتایا نہیں
ڈوبتی شام میں ڈوبتا کون ہے - اک شمع جلاتے ہو اک شمع بجھاتے ہو
یہ چاند ابھرتا دل ڈوبتا جاتا ہے - عارف کے ذکر شب سیں جاتا ہے خواب غفلت
کم ڈوبتا ہے لشکر جو گرد ہو تلاوا - چلو بھر پانی میں ہے ڈوبتا غیر والا
بے حیا گالیا کھاتا ہے کھڑا دریا میں - ڈوبتا ہے اشک میں جی تھامیو
جوں بتاشا اس میں وہ گلنے لگا - تم سے راسخ اٹھ سکیں گے صدمے چاہت کے کہاں
ڈوبتا ہے جی ہمارا نام سن کر چاہ کا - تمہیں تو ہو جسے کہتی ہے ناخدا دنیا
بچا سکو تو بچالو کہ ڈوبتا ہوں میں
محاورات
- آج کل گالا ڈوبتا ہے پتھر ترتے ہیں
- بھانڈ ڈوبتا ہے لوگ کہتے ہیں (تماشا ہے) گاتا ہے
- پاپ کا گھڑا بھر کر (دھار میں) ڈوبتا ہے
- پیراک ہی ڈوبتا ہے
- تیراک ہی ڈوبتا ہے
- تیرتا ہی ڈوبتا ہے (سوار ہی گرتا ہے) تیرے گا سو ڈوبے گا
- حرام چالیس گھر لے ڈوبتا ہے