کش کے معنی
کش کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ کَش }
تفصیلات
iفارسی زبان سے ماخوذ مصدر |کشیدن| کا صیغۂ فعل امر ہے۔ اردو میں بطور لاحقۂ فاعلی اور اسم استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٧٨٨ء کو "دیوانِ جہاں دار" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["ایک قوم","برداشت کرنے والا مرکبات میں جیسے جفاکش","حقے کا گھونٹ (لگانا لینا کے ساتھ)","رنگدار چیز کا جوشاندہ","ستارہ زحل","مار ڈالنے والا جیسے دیو کش","مرکبات میں جیسے ارّہ کش","کشتن کا","کشیدن کا بمعنی کھینچنا","کھینچنے والا"]
اسم
اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
اقسام اسم
- جمع غیر ندائی : کَشوں[کَشوں (واؤ مجہول)]
کش کے معنی
ہمارے زخم کیوں ہونے لگے مِنّت کش مرہم نمک کھایا ہے اب منہ کس طرح پھیریں نمکداں سے (١٩٥٠ء، ترانۂ وحشت، ١٠٠)
"تھوڑی دیر کے بعد سگریٹ جلایا اور گہرا کش لے کر بولے . خاص طور پر سیٹی بجانے کا امتحان لیا جاتا ہے۔" (١٩٨٧ء، اک محشر خیال، ١٢٥)
کش کے مترادف
چسکی, گھونٹ
برتاؤ, پائدار, جانب, چابک, دیرپا, رخ, سمت, صبر, طرزعمل, مار, مستقل, ڈھنگ, کسوٹی
کش کے جملے اور مرکبات
کش مکش
کش english meaning
drawingpulling; carryingbearingenduring; drawer; bearer; a pulla whiffassay-cide [P~کشتن]one who kills or destroyspull at hookahthe touchstone
شاعری
- یار ہے میر کا مگر گل سا!
کہ سحر نالہ کش ہے بلبل سا! - کلیجہ چھن گیا پر جان سختی کش بدن میں ہے
ہوئے اس شوخ کے ترکش کے سارے تیر بھی آخر - ہمنشیں جا بیٹھ‘ محنت کش کوئی دل چاہیئے
عشق تیرا کام ہے تو ہے بغل پرور بہت - بیکلی اُس کی نہ ظاہر تھی جو تو اے بلبل
دم کش میر ہوئی اُس لبِ گفتار کے ساتھ - گلیاں
(D.J. ENRIGHT کی نظم STREETS کا آزاد ترجمہ)
نظم لکھی گئی تو ہنوئی کی گلیوں سے موسوم تھی
اس میں گرتے بموں سے نکلتی ہُوئی موت کا تذکرہ تھا‘
فلاکت‘ دُکھوں اور بربادیوں کی اذیّت بھری داستاں درج تھی
اِس کے آہنگ میں موت کا رنگ تھا اور دُھن میں تباہی‘
ہلاکت‘ دُکھوں اور بربادیوں کی الم گُونج تھی
نظم کی اِک بڑے ہال میں پیش کش کی گئی
اِک گُلوکار نے اس کو آواز دی
اور سازینے والوں نے موسیقیت سے بھری دُھن بنا کر سجایا اِسے
ساز و آواوز کی اس حسیں پیشکش کو سبھی مجلسوں میں سراہا گیا
جب یہ سب ہوچکا تو کچھ ایسے لگا جیسے عنوان میں
نظم کا نام بُھولے سے لکھا گیا ہو‘ حقیقت میں یہ نام سائیگان تھا!
(اور ہر چیز جس رنگ میں پیش آئے وہی اصل ہے)
سچ تو یہ ہے کہ دُنیا کے ہر مُلک میں شاعری اور نغمہ گری کی زباں ایک ہے
جیسے گرتے بموں سے نکلتی ہُوئی موت کی داستاں ایک ہے
اور جیسے تباہی‘ فلاکت دُکھوں اور بربادیوں کا نشاں ایک ہے
سچ تو یہ ہے کہ اب کرّہ ارض پر دُوسرے شعر گو کی ضرورت نہیں
ہر جگہ شاعری کا سماں ایک ہے
اُس کے الفاظ کی بے نوا آستیوں پہ حسبِ ضرورت ستارے بنانا
مقامی حوالوں کے موتی سجانا
تو ایڈیٹروں کے قلم کی صفائی کا انداز ہے
یا وزیرِ ثقافت کے دفتر میں بیٹھے کلکروں کے ہاتھوں کا اعجاز ہے!! - برسوں رہا ہے صلمہ کش اشک و آہ دل
نہ نسخہ کچھ آب زدہ کچھ جلاہوا - کیونکہ ترک مے کریں کچھ آج کے مے کش نہیں
ہم نے میخانے میں آکر سدھ سنبھال محتسب - کلیجہ چھن گیا پر جان سختی کش بدن میں ہے
ہوئے اس شوخ کے ترکش کے سارے تیر بھی آخر - سب اپنا کام کرتی تھیں خود دختر نبی
گھر میں نہ آش پز تھا نہ جاروب کش کوئی - جو دیکھی کہ شہ ہے بتھر لشکری
ترنگ باد پا پیش کش کی پری
محاورات
- آب ندیدہ موزہ کشیدہ
- آمادۂ سرکشی رہنا یا ہونا
- آنکھ نہ دیدہ کاڑھے کشیدہ
- ایک ترکش کے تیر ہیں
- بگڑی پر دوست بھی کنارہ کش ہوجاتے ہیں
- بھاڑا بیاج کشنا پیچھے پڑے کچھ نا
- بھلے بابا بند پڑی گوبر چھوڑ کشیدے پڑی
- بیک جرعہ درکشید کرنا
- ترکش میں تو (دو) تیر نہیں پر شرما شرمی لڑتے ہیں
- جیسے بھرشٹ دیو ویسی نکشٹ پوجا