کلائی کے معنی
کلائی کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ کَلا + اِی }
تفصیلات
iسنسکرت زبان کے اسم |کَلا چکا| سے ماخوذ اسم ہے۔ اردو میں عربی رسم الخط کے ساتھ بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٨٠٩ء کو "کلیات جرأت" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["ایک قسم کی دال","ایک قسم کی ورزش (کرنا ہونا کے ساتھ)","ایک قسم کی ورزش جس میں حریف سے اپنی کلائی چھڑا کر اس کی کلائی پر ہاتھ چڑھا دیتے ہیں","جانور کے ٹخنے اور گھٹنے کے درمیان کا حصہ","عورتیں اسی جگہ چوڑیاں پہنا کرتی ہیں","کہنی سے لے کر پنجہ سے اوپر تک کا حصہ اور نیز ہاتھ کے قریب کا وہ حصہ جو گٹے کے قریب ہے","ہاتھ اور کہنی کے درمیان کا حصہ"]
کَلاچکا کَلائی
اسم
اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
اقسام اسم
- جمع : کَلائِیاں[کَلا + اِیاں]
- جمع غیر ندائی : کَلائِیوں[کَلا + اِیوں (واؤ مجہول)]
کلائی کے معنی
"اس نے ایک ہاتھ سے گڈو کی کلائی اور دوسرے سے اپنی جیب تھامی ہے۔" (١٩٨٩ء، خوشبو کے جذیرے، ١٣٧)
"(خرگوش) دھڑ سے جڑا ہوا حصّہ بالائی بازو، درمیانی حصّہ کلائی یا پیش بازو۔۔۔کہلاتا ہے۔" (١٩٨١ء، اساسی حیوانات، ٢٢٩)
کبھی تو پھولوں سے پنجہ کبھی کلائی ہے خم آج زلفوں کو دکھلاتے ہیں کمر سے آپ (١٨٦١ء، کلیاتِ اختر، ٢٩٨)
کلائی کے مترادف
پہنچا, ہاتھ
پہنچا, زند, ساعد, مِعصم, مڑوند, ہاتھ
شاعری
- کلائی کا ہے یہ عالم کہ بس صفائی ہے
گلے میں شمع کے دیکھا ہےآج تک ناسور - شاخیں چھویں تو ان کی کلائی مروڑدوں
گل دیکھے بھر نظر تو ابھی آنکھ پھوڑ دوں - ہوا توارد نو دفتر نزاکت میں
لچک رہی ہے کلائی تری کمر کی طرح - دستانہ ہے کہ تیغ ید اللہ کا نیام
مُنہ میں کلائی شیر کے یہ ہے انہیں کا کام - شاخ گل بہنے کلائی میں کل کا کنگنا
زرد جوڑے پہ بسنت اپنا دکھائے عالم - بلچک وہیں اک ماری کلائی پہ جو اک بار
پنجے سے ستمگر کے گرا گرز گراں بار - طاقت میں ہے پشن کی حقیقت نہ گیو کی
انگلی سے پھرتا ہوں کلائی میں دیو کی - اڑاتے تم تو ہو کنکوا نخرے تلے سے
کہیں نہ بار کلائی پہ ہو لٹائی کا - خدا کے واسطے گھبرا نہ جانا ذبح کرتے وقت
غضب ہوگا جو موچ آجائے گی نازک کلائی میں - کیوں رنگ حنا ہاتھ پہ اس کے نہ گراں ہو
گل ہاتھ میں لینے سے لچکتی ہے کلائی
محاورات
- باڑھ بچا کر کلائی پر ہاتھ ڈال دینا