کم کم کے معنی

کم کم کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل

{ کَم + کَم }

تفصیلات

iفارسی زبان سے ماخوذ اسم |کم| کی تکرار سے مرکب تکراری |کم کم| بنا۔ اردو میں بطور متعلق فعل اور صفت استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٦٧٤ء کو "نصرتی" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["اندک اندک","تھوڑا تھوڑا","قطرہ قطرہ","گاہے گاہے","کبھی کبھار","کبھی کبھی"]

اسم

صفت ذاتی, متعلق فعل

کم کم کے معنی

["١ - [ قدیم-کنایۃ ] ہلکا، نرم، آہستہ (جال، رفتار کے لیے مستعمل)۔"]

[" شکر در گاہ میں خدا کے دل شعر کہتا ہے باد کم کم سا (١٧٩٥ء، دل (عظیم آبادی)، ٣٤)"]

["١ - تھوڑا، ذراسا، تھوڑا تھوڑا۔","٢ - کبھی کبھی، شاذو نادر، گاہے گاہے۔"]

["\"وہ ملتے ہیں لیکن ذرا فاصلے سے، قریب آتے ہیں مگر آہستہ آہستہ، کھلتے مگر کم کم۔\" (١٩٧٩ء، زخم ہنر (دیباچہ)، ٧)","\"شہرت جیسے بھلے مانس کم کم پیدا ہوتے ہیں۔\" (١٩٨٦ء، بازگشت و بازیافت، ١١٠)"]

شاعری

  • چلتے ہو تو چمن کو چلئے سنتے ہیں کہ بہاراں ہے
    پھول کھلے ہیں پات ہرے ہیں کم کم باد و باراں ہے
  • یہ اتصال اشک جگر سوز کا کہاں
    روتی ہے یوں تو شمع بھی کم کم تمام شب
  • چلتے ہو تو چمن کو چلیے کہتے ہیں کہ بہاراں ہے
    پات ہرے ہیں پھول کھلے ہیں کم کم بادوباراں ہے
  • کھلنا کم کم کلی نے سیکھا ہے
    اُس کی آنکھوں کی نیم خوابی سے
  • وہ جوت بدن کی پیر ہن میں جیسے
    تاروں کی کرن میں لپلپاہٹ کم کم
  • کھلنا کم کم کلی نے سیکھا ہے
    اس کی آنکھوں کی نیم خوابی سے
  • کِھلنا کم کم کلی نے سکھا ہے
    ان کی آنکھوں کی نیم خوابی سے

Related Words of "کم کم":