کو کے معنی
کو کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ کو (و مجہول) }{ کُو }{ کَوے }
تفصیلات
iپراکرت سے بطور حرف اردو میں داخل ہوا۔ ١٦٣٥ء کو "سب رس" میں مستعمل ملتا ہے۔, iفارسی زبان سے ماخوذ کلمہ ہے جو اردو میں اپنے ماخذ معانی و ساخت کے ساتھ اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ تحریراً سب سے پہلے ١٧٢٨ء کو "دیوان زادہ حاتم" میں مستعمل ملتا ہے۔, ١ - شاعر، دانا آدمی، منی رشی۔, m["اگر دو مفعول ہوں تو کو مفعول بہ کے ساتھ استعمال ہوتا ہے","تئیں جیسے اُس کو مارا","تنگ راہ","دانا آدمی","زائد ربط کلام کے لئے جیسے کل کو آنا بجائے کل آنا","شام کو جائے گا","علامت مفعول","فراخ رستہ","گھر کو گیا"]
اسم
حرف جار, اسم ظرف مکان ( مذکر - واحد ), اسم نکرہ
کو کے معنی
نہ دو داغوں کے بھید آہوں کو روکو نہ لو نالوں کا نام آہستہ بولو (١٩٨١ء، حرف دل رس، ٢٦)
"کوئی شخص ایک جورو کے سوا دوسری کو شادی نہیں کر سکتا"۔ "اسے جا کر کہو کہ بوڑھا باپ اپنی بیٹی کو ملنا چاہتا ہے" (١٨٤٨ء، تاریخ ممالک چین (ترجمہ)، ١٠٥:١)(١٩٠٧ء، سفید خون، ٤٦)
"روز کے مقابل آج دیر کو عشا کے لیے موتی مسجد میں تشریف لے گئے"۔ (١٩٢٥ء، مینا بازار، شرر، ٦٢)
ہم کو جاناں سے نہ کچھ پرسش جانانہ سے کام غم کو اب غم ہی کہیں، کیوں غم جانانہ کہیں (١٩٥٨ء تار پیراہن، ٧٠)
ہم سے تم کو لاکھ ہوں گے، تم سا ہم کو ہے کہاں تم اگر مل جاؤ ہم کو پھر ہمیں کیا چاہیے (١٩٠١ء، راقم دہلوی (تلامذہ غالب، ١٦٦))
|شام کو کچھ دوست ملنے آ گئے ان سے باتیں کرتے رہے"۔ (١٩٩٢ء، ساون آیا ہے (حرف آغاز)، ٢٣)
|لوگ باری باری ان کی عیادت کو کمرے میں آئے" (١٩٩٢ء، ساون آیا ہے (حرف آغاز)، ٢٥)
|آرام سے لیٹے ہوئے معہ سامان منزل کو پہونچ جاتے ہیں"
|سانچے کو ڈھکنا اور پیندا نہیں ہوتا" (١٩٤٨ء، اشیائے تعمیر (ترجمہ) ٣١)
|اب میں تھوڑی دیر کو سوتا ہوں" (١٩٩١ء، شاخسانے، ٧٨)
|دلی سے لکھنؤ کو خبر گئی کہ اردو میں جان آ گئی" (١٨٧٩ء، مقامات ناصری، ١٠٦)
|خان بہادر مع اپنی بیوی کے رات کی گاڑی سے مراد آباد جانے کو ہیں"۔ (١٩٣٩ء، شمع، ١٦١)
چھینٹے دے دے کر جگانے کو لگا ابر بہار سبزہ خوابیدہ اپنے خواب سے چونکا ہے آج (١٩٠٨ء، گلزار بادشاہ، ٢٠٨)
|دو قسم کے سالن جن میں سیر کو سیر ہی گھی ڈالا جاتا ہے"۔ (١٩٦٧ء، اردو نامہ، کراچی، اکتوبر، ٩٩)
|دھری کو فولادی بازو لگے ہوتے ہیں" (١٩٤٨ء اشیائے تعمیر (ترجمہ)، ٧٣)
|اندر کو سات محرابیں، باہر صحن کی طرف گیارہ دروازے ہیں"۔ (١٩٢٩ء، تخت طاؤس، ٣٥)
|شاید . کتنے ہی دن نہائے کو ہو گئے تھے، خوب نہائی" (١٩٤٣، دلی کی چند عجیب ہستیاں، ٢١٠)
|جن لوگوں کو چشم بینش ہے ان کو محسوس بھی ہوتا ہے" (١٩٢٣ء عصائے پیری، ٣٣)
|میرے یہاں آنے کو سنے گا تو خدا جانے دل میں کیا کہے گا اور کیا کرے گا"۔ (١٩٢٥ء، مینا بازار، شرر، ١٠٥)
بنگام صبوح ہے خروش اے ساقی ہے بادہ و کوئے مے فروش اے ساقی (١٩٣٨ء، الخیّام (ترجمہ)، ٢٣)
کو کے مترادف
گلی, محلہ
اندر, برائے, حرف, رشی, سے, شاعر, صرف, طرف, گلی, گلیا, لئے, منی, میں, واسطے, کا, کب, کو, کوئی, کوچہ, کون
کو کے جملے اور مرکبات
کوئے ناز, کوئے ستم, کوئے دوست, کوئے جاناں, کوئے یار, کو بہ کو
کو english meaning
Where?a lanea market placea streetstreet
شاعری
- چلتے ہو تو چمن کو چلئے سنتے ہیں کہ بہاراں ہے
پھول کھلے ہیں پات ہرے ہیں کم کم باد و باراں ہے - مجرم ہوئے ہم دل کے ورنہ
کس کو کسو سے ہوتی نہیں چاہ - ادراک کو ہے ذات مقدس میں دخل کیا
اودھر نہیں گزار گمان و خیال کا - حیرت ہے عارفوں کو نہیں راہ معرفت
حال اور کچھ ہے یاں اُنھوں کے حال و قال کا - پہنچا جو آپ کو تو میں پہنچا خُدا کے تئیں
معلوم اب ہوا کہ بہت میں بھی دور تھا - ہم خاک میں مِلے تو مِلے لیکن اے سپہر
اُس شوخ کو بھی راہ پر لانا ضرور تھا - ریختہ کا ہے کو تھا اس رتبہ اعلیٰ میں میر
جو زمین نکلی اُسے تا آسماں میں لے گیا - ناحق ہم مجبُوروں پر یہ تُہمت ہے مُختاری کی
چاہتے ہیں سو آپ کریں ہیں ہم کو عبث بدنام کیا - سارے اوباش جہاں کے تجھ سے سجود میں رہتے ہیں
بانکے ٹیڑھے ترچھے تیکھے سب کا تجھ کو امام کیا - اس عہد میں ایسی محبت کو کیا ہوا!
چھوڑا وفا کو اُن نے مروت کو کیا ہوا
محاورات
- جان بچی لاکھوں پائے (خیر سے بدھو گھر کو آئے)
- چور کا کوئی حمایتی نہیں
- دکھ بھریں بی فاختہ اور کوے میوے کھائیں
- کوئلوں کی دلالی میں (منہ بھی کالا کپڑے بھی کالے) ہاتھ کالے
- کوئی آنکھوں کا اندھا کوئی عقل کا اندھا
- کوئی نہ پوچھے بات میرا دھن سہاگن نام
- کوفتہ رانان نہی (حلوائے بے دو دست) کوفتہ است
- کھاتے پیتے جگ ملے اور سر ملے نہ کوئی
- (بات) دل کو لگنا
- (بروں کی) جان کو رونا