کہ کے معنی
کہ کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ کِہ }
تفصیلات
iفارسی زبان سے ماخوذحرف ہے۔ اردو میں بطور حرف بیان استعمال ہوتاہے۔ ١٦٦٥، کو "اردو کی ابتدائی نشوونما میں صوفیائے کرام کا کام" کے حوالے سے فرید الدین گنج شکر کے ہاں مستعمل ملتاہے۔, m["چونکہ","(بیانیہ) جملہ بیانیہ کے شروع میں آتا ہے","(حرف ربط) تاکہ","(س کَتھ باتیں کرنا)","جس نے","مخففِ \u2019\u2019کاہ\u2018\u2018","کاہ کا مخفف","کس لئے","کم رُتبہ","کہنا کا"]
اسم
حرف بیانیہ ( واحد )
کہ کے معنی
"اب منہ میں گھنگھنیاں ڈال کر بیٹھ گئی ہو . بولتی کیوں نہیں ہو کہ میں یہ سب کچھ غلط کہہ رہی ہوں" (١٩٨٨ء، تبسم زیر لب، ١٤٠)
ہوئے ہیں ہر بن موئے مثرہ سے جاری اشک کہ بند کھول دیا، مشک کے دھانے کا (١٨٧٣ء، کلیات قدر، ١٠٥)
"تا ہم جہاں تک وہ خوشی ہے کہ ہمیں حاصل ہوتی ہے۔۔۔۔وہ ایک معین شے ہے" (١٩٢٣ء، اصول اخلاقیات، ٤٨)
کوئی دیوا جلا کہ آئی صبح کوئی غنیچہ کھلا کہ شام ہوئی (١٩٨٨ء، تارپیراہن، ١٦٤)
"اب کے ہمارے کام کا یہ جزو ختم وہا ذرا اس نقطہ کا پتہ چلائیں جہاں سے ہم لوگ ادھر مڑے تھے" (١٩٣٣ء، ریاست(ترجمہ) ٤٧٣)
"ہم نے یہ تمام ہدایات نہایت غور سے پڑھیں اور نوٹ کر لیں کہ نہایت اہم تھیں" (١٩٨١ء، دھوپ کنارا، ٢٠)
ایک میں کیا کہ سب نے جان لیا تیرا آغاز اور تیرا انجام (١٨٦٩ء، دیوان غالب، ١٣٢)
پوچھا کہ سبب کہا کہ قسمت پوچھا کہ طلب کہا قناعت (١٨٣٨ء، گلزار نسیم، ١٣)
"جہاں ہوا کانوں میں گھسی کہ زکام تمہیں آ لیتاہے" (١٩٥٩ء، وہمی، ٣٤)
کس قدر ہرزہ سراہوں کی عیاذًا باللہ یک قلم خارج آداب وقار و تمکیں (١٨٦٩ء، دیوان غالب، ١٣٤)
"جہاں بد گمانی اور بد خیالی پیدا ہوئی کہ دوستی دشمنی سے بدل گئی" (١٩٤٠ء، حکایات رومی(ترجمہ) ٣١:٢)
حضوری نگاہوں کو دیدار سے تھی کھلا تھا وہ پردہ کہ جو درمیان تھا (١٨٤٦ء، کلیات آتش، ٢٤٣)
معلوم ہو چکا ہے دنیا کا راز پھر بھی ہم ہیں کہ ست غفلت، دل ہے کہ بے خبر ہے (١٩١٩ء، انجم کدہ، ١٦)
"اس بات کا خیال رکھنا کہ سموسے بھاری بھاری کچلوندے نہ ہوں" (١٩٥٦ء، افشان، ٥٥)
ہمیشہ ٹال دیا تم نے حال دل نہ سنا اب آئے سننے کہ طاقت مری زباں میں نہیںحو:١٨٦ء، دیوان سخن، ١٦٢
"میں نے ٹوپی اٹھا کر اس طرح سلام کیا کہ. دونوں خوش ہو گئے" (١٩٧٧ء، کرشن چندر، طلسم خیال)
بے خبر ہے دلوں سے دور زماں ساز ٹوٹے ہیں رقص ہے کہ رواں (١٩٥٨، دیوان غالب، ٨٨)
فیض خلق اس کا ہی شامل ہے کہ ہوتا ہے سدا بوئے گل سے نفس باد صبا عطر آ گئیں (١٨٦٩ء، دیوان غالب، ١٣٤)
"ان کو یہ سمجھانا ہو گا کہ دام اقبالہ، چونکہ دم تحریر ہمارا کوئی گواہ یا حمایتی . موجود نہیں تھا" (١٩٨٨ء تبسم زیر لب، ١٤١)
کہ کے جملے اور مرکبات
کہ سن کر
کہ english meaning
say
شاعری
- ہم ہوئے‘ تم ہوئے کہ میر ہوئے
اس کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے - چلتے ہو تو چمن کو چلئے سنتے ہیں کہ بہاراں ہے
پھول کھلے ہیں پات ہرے ہیں کم کم باد و باراں ہے - رہ پیروی میں اُس کی کہ گامِ نحست میں
ظاہر اثر ہے مقصد دل کے وصول کا - پہنچا جو آپ کو تو میں پہنچا خُدا کے تئیں
معلوم اب ہوا کہ بہت میں بھی دور تھا - کہنے لگا کہ دیکھ کے چل راہ بے خبر
میں بھی کبھو کسو کا سر پُرغرور تھا - حرف نہیں جاں بخشی میں اُس کی خرابی اپنی قسمت کی
ہم سے جو پہلے کہ بھیجا سو مرنے کا پیغام کیا - اس کے آگے پر ایسی گئی دل سے ہم نشین
معلوم بھی ہوا نہ کہ طاقت کو کیا ہوا - تھی صَعب عاشقی کی ہدائت ہی میر پر
کیا جانیے کہ حال نہایت کو کیا ہُوا - مری اب آنکھیں نہیں کُھلتیں ضعف سے ہمدم
نہ کہ کو نیند میں ہے تو یہ کیا خیال کیا - لگا نہ دل کو کہیں کیا سنا نہیں تُو نے
جو کُچھ کہ میر کا اس عاشقی نے حال کیا
محاورات
- (ایمان کی کہیں گے) ایمان ہے تو سب کچھ (سچ کہینگے)
- (گاہ) گاہے باشد کہ کود کے ناداں۔ ز غلط بر ہدف زند تیرے
- آؤ تو جاؤ کہاں
- آئیں تو کہاں جائیں
- آئے تو جائے کہاں
- آپ آپ کرنا یا کہنا
- آپ ایک کہینگے میں دس سناؤنگا
- آپ بیتی کہوں کہ جگ بیتی
- آپ بیتی کہوں یا جگ بیتی
- آپ بیتی کہہ غیر سے کیا مطلب