گرمانا کے معنی
گرمانا کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ گَر + ما + نا }
تفصیلات
iفارسی زبان سے ماخوذ اسم صفت |گرم| کے ساتھ |انا| بطور لاحقۂ مصدر و تعدید لگانے سے |گرمانا| بنا۔ اردو میں بطور فعل اسمتعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٨٠٥ء کو "دیوان بیختہ" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["برسات کے موسم میں گرمی ہونا","جوش میں آنا","حرارت میں بھر کر تیز دوڑنا","خفا ہونا","شباب ہونا","غصے میں آنا","گرم ہو جانا","گرم ہونا","مادہ چار پایہ کا مستی پر آنا","ناراض ہونا"]
اسم
فعل لازم
گرمانا کے معنی
"یہ بخارات ہوا میں گرما کر چڑھتے ہیں۔" (١٩٠٦ء، جغرافیہ طبعی، ١١٨)
سن کے یہ اور بھی گرما کے وہ ناری آیا متصل آتے ہی پھرتاک کے نیزہ مارا (١٩٣٣ء، عروج (سید خورشید حسن)، عروج سخن، ٢٣٢)
"مجھ ایسی چاہنے والی ان کو نہ ملے گی، سب طرح حاضر ہوں، نگوڑے ایسے ٹھنڈے ہیں کہ کسی طرح نہیں گرماتے۔" (١٨٩١ء، طلسم ہوش ربا، ٧٨٩:٥)
"خطبے کے بعد وہ نہایت پرتاثیر وعظ کرتے ہیں جس سے تمام مجلس گرما جاتی ہے۔" (١٨٩٨ء، مضامین سلیم، ٤٦:٢)
ہوا اب آہ کی گرمی سے رونا چشم کا ظاہر کہ برسے ہے نہایت ابر دریا بار گرما کر (١٨٠٩ء، جرات، دیوان (ق)، ٢٠٨)
"ٹھٹھری ہوئی کرنیں گھروندوں کے روزنوں سے اندر داخل ہونے کی کوشش کرتی ہیں تاکہ چولہوں کی آگ سے خود کو گرما سکیں۔" (١٩٨٦ء، چوراہا، ١٥)
کرسکے نباض ہستی بھی نہ تعمیر حیات گر مئی الفاظ سے محفل کو گرماتے رہے (١٩٧٠ء، زیبائیاں، ٣٤)
"گھوڑے کو ایسا گرمایا کہ کلیلیں اور شوخیاں کرنے لگا۔" (١٨٩٣ء، نشتر، ١٠٠)
گرمانا کے مترادف
تپانا
بھبکنا, تپنا, جلنا, جھلانا, جھنجلانا, مستانہ