گھیر کے معنی
گھیر کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
تفصیلات
i, m["پکڑنا","ارد گرد","چار دیواری","گردا گرد","گردا گرد ہر چیز کا خصوصاً انگر کے چوغہ درخت وغیرہ کا","گردا گرد ہر چیز کا خصوصاً انگرکھے چوغہ درخت وغیرہ کا","گھیرنا کا","گھیرے ہوئے"]
گھیر کے جملے اور مرکبات
گھیر پھیر, گھیر تارا, گھیر چپیک کے, گھیر دار, گھیر کا, گھیر کر, گھیر گھار کر, گھیر گھوٹ
شاعری
- دیو آدمی بن کے بن میں آئے
آتے جاتے کو گھیر لائے - دیو آدمی بن کے بن میں آئے
آتےجاتے کو گھیر لائے - سنی بانگ قانون و چنگ و رباب
لیا گھیر ہے ہر اک طرف سے شتاب - ایک رستہ ہو تو بیٹھوں گھیر کے اوس کی طرف
دیکھ پڑتے ہیں وہاں کے سب ہی رستے چورہے - جامہ زیبوں سے ڈرو صیاد ہیں اس دور کے
لے گئے دل گھیر نیچے دامن اونچی چولیاں - اس میں جو ہونی ہو سو ہو ہم پر
بیٹھئے اب تو اس کا گھر گھیر کر - اشک نے میرے ملائے کتنے ہی دریا کے پاٹ
دامن صحرا میںورنہ اس قدر کب گھیر تھا - آشنا ڈوبے بہت اس دور میں
گرچہ جامہ یار کا کم گھیر ہے - جامہ زیباں کوں کیوں تجوں کہ مجھے
گھیر رکھتا ہے دور دامن کا - عجب اک جلالت سے بڑھ کر وہ شیر
کھڑا ہو گیا راہ حضرت کی گھیر
محاورات
- پتریا کا ڈیرا جیسے ٹھگوں کا گھیرا
- تسبیح پھیروں (سترکو) کس کو گھیروں
- تل گھیرا اوپر سہرا
- تلے گھیرا اوپر سہرا
- رستہ گھیر کر کھڑا ہونا
- شامت سر پر کھیلنا۔ شامت سوار ہونا (کا) گھیرنا
- قضا کا کشاں کشاں یا کھینچکر یا گھیر کر لانا
- گھر کے ہی نہ گھیرتے
- گھیر گھار کر
- گھیر گھار کر لے آنا یا لانا