آگے کے معنی
آگے کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ آ + گے }
تفصیلات
iسنسکرت زبان میں اصل لفظ |آگر| ہے اور اس سے ماخوذ اردو میں |آگے| مستعمل ہے۔ اردو میں بطور اسم اور گاہے بطور متعلق فعل بھی مستعمل ہے۔ سب سے پہلے ١٧١٤ء میں "دیوان فائز" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["(کہے) سے (س اَگر پہلے)","آﺋندہ زمانے میں","اس سے پہلے","اس طرف پرے","اس کے بعد","جیتے جی","دانست میں","مزید برآں","مقابلے میں","نظر میں"]
آگر آگے
اسم
اسم نکرہ ( مذکر )
آگے کے معنی
"جوق جوق لوگ چلے آ رہے ہیں جو لوگ پیچھے ہیں ان کو قدم آگے بڑھانے کا موقع نہیں ملتا۔" (١٩٠٥ء، حورعین، ١٤٤:٢)
"پشت مبارک پر سوار ہو جاتے تھے کبھی دوش پاک پر بیٹھ گئے کبھی آپ کے آگے سے نکل گئے۔" (١٩٤٠ء، فاطمہ کا لال، ١١)
"ذرا آگے آ کر بات سن لو۔" (١٨٩١ء، امیراللغات، ١٦٠:١)
"گاڑی بان نے بیلوں کے آگے کٹی ڈالی۔" (١٩٣٢ء، بیلہ میں میلہ، ٣٣)
صدمہ فرقت کے آگے شدت غم کچھ نہیں ہیچ یاد رفتگاں میت کا ماتم کچھ نہیں (١٩٠٢ء، روح رواں، ١٩)
محبت کے بندھن یہ کچے سے دھاگے بڑا دم بڑا زور رکھتے تھے آگے (١٩٥٨ء، تارپیراہن، ٢٥٧)
رواں ہیں سبھی ایک منزل کی جانب کوئی ہم سے پیچھے کوئی ہم سے آگے (١٩٥٨ء، تار پیراہن، ٢٥٨)
میں سجھتا ہوں کہ دشوار ہے صحت لیکن چارہ گر اپنی سی کر آگے ہے قسمت میری (١٩٠٠ء، دیوان تسلیم، نظم دل افروز، ٢٥٩)
"مہری بھی بغدادی قاعدہ اور عم کے سیپارے کے آگے نہیں بڑھی تھی۔" (١٩٥٩ء، محمد علی ردولوی، گناہ کا خوف، ٧٣)
ہو کیا غم فراق سے حال آگے دیکھیے کچھ آ گیا ابھی سے ہے تاب و تواں میں فرق (١٨٤٩ء، کلیات ظفر، ٥٤:٢)
دنیا سے اٹھا شیر جری آپ کے آگے بیٹے کو نہ موت آئے کسی باپ کے آگے (١٩١٢ء، شمیم، مرثیہ (قلمی نسخہ)، ٢٣)
چاہوں تو بھر کے کولی اٹھالوں ابھی تمھیں کیسے ہی بھاری ہو مرے آگے تو پھول ہو (١٨١٠ء، میر، کلیات، ٢٤٧)
"وہ اکیلی اس جھروکے میں جس کا ذکر آگے آ چکا ہے ریل کو دیکھ رہی تھی۔"١٩٤ء، افسانچے، ١٧٩
"کالکا جی کا مندر حضرت سلطان المشائخ کی خانقاہ اور درگاہ سے تین ساڑھے تین میل آگے ہے۔" (١٩٥٧ء، سوانح عمری خواجہ حسن نظامی، ٢٥)
رہ گیا عرش سے آگے جا کر ہائے عالم مری تنہائی کا (١٨٧٨ء، گلزار داغ، ٤٩)
"سب بیویوں کے آگے مامائیں ٹہل خدمت کو لگی رہتی ہیں۔" (١٩٢٤ء، انشائے بشیر، ٢٨٣)
"ایسا ہی پڑھانا ہے تو قرآن شریف پڑھا دو، نماز سکھا دو، بس اس کے آگے ٹھیک نہیں۔" (١٩٠٨ء، صبح زندگی، ٥٦)
"ایک متفقہ آواز بلند ہوئی اور لوگوں نے تقاضا کیا کہ آگے فرمایئے۔" (١٩٣٢ء، بیلہ میں میلہ، ٢٥)
"اب اسے کہاں تک پڑھا پڑھا کر نوکری کراؤ گی، آدمی کو کچھ آگے کا بھی خیال ہوتا ہے۔" (١٩١٤ء، راج دلاری، ٣)
آگے کے مترادف
آئندہ, پیش, قبل, فرق, نزدیک
آﺋندہ, آگامی, آگم, باقی, بعد, بُعد, بعدہ, پاس, پیشتر, درکنار, دور, دیما, روبرو, زیادہ, سامنے, فاصلہ, فرق, قریب, مزید, مقابل
آگے کے جملے اور مرکبات
آگے پیچھے
آگے english meaning
(Plural) of خراجaheadbeforebeyondfacefurther onhereafterin advancein front (of)in futurenext in time or placeoppositetributes
شاعری
- اس کے آگے پر ایسی گئی دل سے ہم نشین
معلوم بھی ہوا نہ کہ طاقت کو کیا ہوا - شرمندہ ترے رُخ سے ہے رخسار پری کا
چلتا نہیں کچھ آگے ترے کبک دری کا - راہ دور عشق سے روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا
یہ شعر اس طرح بھی مشہور ہے
ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا - ہمارے آگے ترا جب کسو نے نام لیا
دل ستم زدہ کو ہم نے تھام تھام لیا - خراب رہتے تھے مسجد کے آگے میخانے
نگاہِ مست نے ساقی کی انتقام لیا - دُکانیں حسن کی آگے ترے تختہ ہوئی ہوں گی
جو تو بازار میں ہوگا تو یوسف کب بکا ہوگا - کیا جانوں بزم عیش کہ ساقی کی چشم دیکھ
میں صحبتِ شراب سے آگے سفر کیا - گو بستیوں کو ٹال دے آگے سے کوہکن
سنگ گرانِ عشق اُٹھایا نہ جائے گا - آگے جمال یار کے معذور ہوگیا
گل اک چمن میں دیدۂ بے نور ہوگیا - بہتوں کو آگے تھا یہی آزار عشق کا!!
جیتا رہا ہے کوئی بھی بیمار عشق کا!!
محاورات
- آئینہ بیمار (کو نہ دکھانا) کے آگے نہ رکھنا
- آگ کے آگے سب بھسم ہیں
- آگل کھیتی آگے آگے پچھلی کھیتی بھاگ جاوے
- آگے (آئی) آیت
- آگے (آگے) آنا
- آگے آگرہ پیچھے لاہور
- آگے آگے
- آگے آگے گرو پیچھے پیچھے چیلا
- آگے آگے ہونا
- آگے بڑھ جانا یا بڑھنا