ابتدا کے معنی

ابتدا کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل

{ اِبْ + تِدا }

تفصیلات

iعربی زبان سے اسم مشتق ہے۔ ثلاثی مزید فیہ کے باب |افتعال| سے مصدر ہے عربی میں اس کا املا |ابتداء| ہے۔ اہل اردو |ء| کی آواز نہ ہونے کی وجہ سے |ء| لکھنا فصیح نہیں سمجھتے۔ ١٥٨٢ء کو "کلمۃ الحقائق" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["(عروض) مصرع دوم کا رکن اول","(کسی چیز یا امر کا) ابتدائی دور","انتہا کا تفیض آد آرسبھ شروع آغاز نکاس مصر منبع","انتہا کا نقیض","بَدَا۔ شروع کرنا","پہلا سرا","شروع کرنے یا ہونے کا عمل","غیر معین اور نا معلوم قدیم ترین زمانہ","کسی امر کی بسم اللہ","کسی شے کے شروع ہونے کی طرف کا کنارہ"]

بدء اِبْتِدا

اسم

اسم حاصل مصدر ( مؤنث - واحد )

ابتدا کے معنی

١ - کسی امر کی بسم اللہ، شروعات، آغاز۔

"غسانیوں کے حملے کی ابتدا جس طرح ہوئی وہ اوپر گزر چکا ہے"۔ (١٩١٤ء، سیرۃ النبی، ٩:٢)

٢ - شروع کرنے یا ہونے کا عمل۔

 بھیگی ہے رات فیض غزل ابتدا کرو وقت سرود، درد کا ہنگام ہی تو ہے (١٩٥٤ء، زنداں نامہ، فیض، ١٠٩)

٣ - غیر معین اور نامعلوم قدیم ترین زمانہ، ازل۔

"ابتدا میں خدا نے آسمان اور زمین کو پیدا کیا"۔ (١٩٢٢ء، موسٰی کی توریت مقدس، ١)

٤ - کسی چیز یا امر کا ابتدائی دور، شروع کا زمانہ، اوائل۔

"مولوی چراغ علی مرحوم نے ابتدا میں ایک معمولی منشی کی طرح دفتر میں ملازمت کی"۔ (١٩٣٥ء، چند ہم عصر، ٢٦)

٥ - پہلا سرا، کسی شے کے شروع ہونے کی طرف کا کنارہ۔

 سنی حکایت ہستی تو درمیاں سے سنی نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم (١٩٢٧ء، شاد، میخانہ الہام، ١٨٢)

٦ - [ عروض ] مصرع دوم کا رکن اوّل۔

"ازالہ . اکثر عروض و ضرب میں واقع ہوتا ہے حشو میں کم، اور صدرو ابتدا میں بالکل نہیں آتا"۔ (١٩٢٥ء، بحرالفصاحت، ١٦٣)

٧ - مبتدا۔

 موضوع اپنا جانتا منطق کو تس پر محمول ابتدا ہی کو کہتا تھا بے خبر (١٨١٠ء، میر، کلیات، ٢٨)

ابتدا کے مترادف

اجرا, آستائی, تمہید, عنفوان, افتتاح, اول, بنیاد

آغاز, آو, آوائل, ازل, اصلیت, اوّل, بدو, بنیاد, پَہَل, سرا, سرچشمہ, شروع, شروعات, عنفوان, مبتدا, مبدا, منبع, نکاس, ہدایت

ابتدا کے جملے اور مرکبات

ابتدائے کلی, ابتداے جزئی, ابتداء المرض

ابتدا english meaning

beginningcommencementexordium; birthrisesourceoriginaverage rent rateCommencement

شاعری

  • ابتدا ہی میں مرگئے سب یار
    عشق کی کون انتہا لایا!!!
  • کہیں یہ ترکِ محبت کی ابتدا تو نہیں
    وہ مجھ کو یاد کبھی اس قدر نہیں آئے
  • بجھے چراغ پہ ہم دوستی پرکھتے ہیں
    یہ رسم اپنے قبیلے میں ابتدا سے ہے!!
  • پھیکا سا ہو چلا ہے کچھ افسانۂ حیات
    آؤ کہ اس میں رنگ بھریں ابتدا سے ہم
  • خدا کرے کہ وہ مل جائے تو فسانہ کہوں
    جو لفظ ڈھونڈ رہا ہوں میں ابتدا کے لئے
  • سُنی حکایتِ ہستی تو درمیاں سے سُنی
    نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم
  • شمیم گل نے جس کی ابتدا کی تھی گلستاں میں
    وہی زنداں میں زنجیرِ گراں تک بات جاپہنچی
  • فرق

    کہا اُس نے دیکھو‘
    ’’اگر یہ محبت ہے‘ جس کے دو شالے
    میں لپٹے ہوئے ہم کئی منزلوں سے گزر آئے ہیں!
    دھنک موسموں کے حوالے ہمارے بدن پہ لکھے ہیں!
    کئی ذائقے ہیں‘
    جو ہونٹوں سے چل کر لہُو کی روانی میں گُھل مِل گئے ہیں!

    تو پھر اُس تعلق کو کیا نام دیں گے؟
    جو جسموں کی تیز اور اندھی صدا پر رگوں میں مچلتا ہے
    پَوروں میں جلتا ہے
    اور ایک آتش فشاں کی طرح
    اپنی حِدّت میں سب کچھ بہاتا ہُوا… سنسناتا ہُوا
    راستوں میں فقط کُچھ نشاں چھوڑ جاتا ہے
    (جن کو کوئی یاد رکھتا نہیں)
    تو کیا یہ سبھی کچھ‘
    اُنہی چند آتش مزاج اور بے نام لمحوں کا اک کھیل ہے؟
    جو اَزل سے مری اور تری خواہشوں کا
    انوکھا سا بندھن ہے… ایک ایسا بندھن
    کہ جس میں نہ رسّی نہ زنجیر کوئی‘
    مگر اِک گِرہ ہے‘
    فقط اِک گِرہ ہے کہ لگتی ہے اور پھر
    گِرہ در گِرہ یہ لہو کے خَلیّوں کو یُوں باندھتی ہے
    کہ اَرض و سَما میں کشش کے تعلق کے جتنے مظاہر
    نہاں اور عیاں ہیں‘
    غلاموں کی صورت قطاروں میں آتے ہیں
    نظریں جُھکائے ہوئے بیٹھ جاتے ہیں
    اور اپنے رستوں پہ جاتے نہیں
    بات کرتے نہیں‘
    سر اُٹھاتے نہیں…‘‘

    کہا میں نے‘ جاناں!
    ’’یہ سب کُچھ بجا ہے
    ہمارے تعلق کے ہر راستے میں
    بدن سنگِ منزل کی صورت کھڑا ہے!
    ہوس اور محبت کا لہجہ ہے یکساں
    کہ دونوں طرف سے بدن بولتا ہے!
    بظاہر زمان و مکاں کے سفر میں
    بدن ابتدا ہے‘ بدن انتہا ہے
    مگر اس کے ہوتے… سبھی کُچھ کے ہوتے
    کہیں بیچ میں وہ جو اِک فاصلہ ہے!
    وہ کیا ہے!
    مری جان‘ دیکھو
    یہ موہوم سا فاصلہ ہی حقیقت میں
    ساری کہانی کا اصلی سِرا ہے
    (بدن تو فقط لوح کا حاشیہ ہے)
    بدن کی حقیقت‘ محبت کے قصے کا صرف ایک حصہ ہے
    اور اُس سے آگے
    محبت میں جو کچھ ہے اُس کو سمجھنا
    بدن کے تصّور سے ہی ماورا ہے
    یہ اِک کیفیت ہے
    جسے نام دینا تو ممکن نہیں ہے‘ سمجھنے کی خاطر بس اتنا سمجھ لو
    زمیں زادگاں کے مقدر کا جب فیصلہ ہوگیا تھا
    تو اپنے تحفظ‘ تشخص کی خاطر
    ہر اک ذات کو ایک تالہ ملا تھا
    وہ مخصوص تالہ‘ جو اک خاص نمبر پہ کُھلتا ہے لیکن
    کسی اور نمبر سے ملتا نہیں
    تجھے اور مجھے بھی یہ تالے ملے تھے
    مگر فرق اتنا ہے دونوں کے کُھلنے کے نمبر وہی ہیں
    اور ان نمبروں پہ ہمارے سوا
    تیسرا کوئی بھی قفل کُھلتا نہیں
    تری اور مری بات کے درمیاں
    بس یہی فرق ہے!
    ہوس اور محبت میں اے جانِ جاں
    بس یہی فرق ہے!!
  • وہ دوراہا بھی آگیا امجد
    جس کا دھڑکا تھا ابتدا سے ہی
  • تھا ابتدا سے علم کہ ہے راستہ غلط
    اور قافلے کے ساتھ بھی چلنا پڑا ہمیں

محاورات

  • ابتدا سے انتہا تک
  • ابتدائے عشق ہے روتا ہےکیا۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا
  • از ابتدا تا انتہا

Related Words of "ابتدا":