استفہام کے معنی
استفہام کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ اِس + تِف + ہام }
تفصیلات
iعربی زبان سے اسم مشتق ہے۔ ثلاثی مزید فیہ کے باب استفعال سے مصدر اور اردو میں بطور حاصل مصدر مستعمل ہے۔ سب سے پہلے ١٦١١ء کو قلی قطب شاہ کے کلیات میں مستعمل ملتا ہے۔, m["سمجھانا","(اوقاف) سوالیہ علامت جو استفہامیہ فقروں کے بعد لگائی جاتی ہے، جیسے: کیا تم نے کھانا کھا لیا؟","(نحو) وہ فقرہ جس میں کوئی سوال ہو","دریافت کرنا","سمجھ کی خواہش","سمجھنے کی خواہش کرنا","سوالیہ فقرہ","کسی بات کا پوچھنا"]
فہم فَہْم اِسْتِفْہام
اسم
اسم مجرد ( مذکر - واحد )
استفہام کے معنی
آج ہر طبع یہ حاضر ہے کہ صد حسن جواب ایک پوشاک ہے زیب تن ہر استفہام (١٩١٩ء، رعب، کلیات، ٢٧١)
"اس کو جملہ خبریہ کے ذریعے سے نہیں بلکہ استفہام کے طریقے سے ادا کرتا ہے۔" (١٩٠٧ء، شعر العجم، ٣٢٩:١١)
استفہام english meaning
Desiring or seeking informationasking for an explanation; inquiryinterrogationDemanding an explanationenquiryinvestigationlightornamentquestionsplendour