بتی
{ بت + تی }
تفصیلات
iسنسکرت زبان کے اصل لفظ |وتری| سے ماخوذ |بتی| اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے ١٥٦٥ء کو "جواہراسرار اللہ" میں مستعمل ملتا ہے۔
["وتری "," بتی"]
اسم
اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
اقسام اسم
- جمع : بَتِّیاں[بَت + تِیاں]
- جمع غیر ندائی : بَتِّیوں[بَت + تِیوں (و مجہول)]
بتی کے معنی
دیے میں جوں بتی ہو یوں دہکتی ہے زباں مکھ میں کروں جس رات کے اندر بیاں سوز نہانی کا (١٧١٨ء، دیوان آبرو (ب) (ق)، ٧)
جلنا نصیب میں ہے تو ہو کچھ فروغ ہی بتی کی جارہہے تن لاغر چراغ میں (١٩٢١ء، اکبر، کلیات، ١: ٢٥)
"ہاتھ سے چھوٹ کر جلتی ہوئی بتی جاپڑی۔ (١٩٠٦ء، الحوق و الفرائض، ٨:١)
پہاڑوں کے اندر ہے رستہ جہاں وہاں دن کو روشن ہوئیں بتیاں (١٩٣٢ء، بے نظیر، کلام بے نظیر، ٣، ٢)
چارہ گر جاے تعجب نہیں گر بن جاوے سوزش عشق سے بتی مرے ناسور کی شمع (١٨٤٩ء، کلیات ظفر، ٥٠:٢)
"بتی . لاکھ کا ڈنڈا جس کے منھ کو آگ پر گرما کر چوڑی بڑھانے کا فرما تیار کرتے ہیں۔" (١٩٤١ء، اصطلاحات پیشہ وراں، ٨٢:٤)
"تنکا شمس کی آنکھیں میں جا پڑا . تو صنوبر نے اپنی اوڑھنی کی بتی بنا کر تنکا نکالا۔" (١٩٢٩ء، تمغۂ شیطانی، ٢٢)
"جب توپوں کو بتی دکھائی گئی پہاڑ اور جنگل جو اس باختہ ہوئے۔" (١٩٠٣ء، انتخاب توحید، ٥٨)
ہر مرتبہ سن جاتا ہے منھ ننھے میاں کا بتی ترے رکھواؤں گا چراح غنی سے (١٩١٢ء، شمیم، از اوراق متعلق بغلور، ٣)
"املا نویسی میں لڑکے سوا قلم کے بتی سے ہرگز نہ لکھیں۔" (١٨٨٩ء، دستورالعمل مدرسین، ١٢)
"معمولی کھپریل میں بانس اور بتی کا ٹھاٹھ باندھا جاتا ہے۔" (١٩١٣ء، انجینیرنگ بک، ٢٣)
وردیاں شتری بانات کی پہنے بتیاں سروں پر باندھے۔" (١٩٤٤ء، دلی کی چند عجیب ہستیاں، ٥١)
مترادف
چراغ, ڈوری, فیتہ