بند کے معنی
بند کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ بَنْد }
تفصیلات
iفارسی زبان کے مصدر |بستن| کا حاصل مصدر ہے، اردو میں اصل معنی و ساخت کے ساتھ بطور اسم اور صفت استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٥٦٤ء کو "دیوان حسن شوقی" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["انسوارا کا نشان جو دیوناگری رسم الخط میں نون غُنّہ کانشان ہوتا ہے","ایک انگیرس جس پر ویدوں کا ایک منتر اُترا تھا","ایک بہادر قوم","ایک مصنف","بدن کا جوڑ","چوڑی قسم کی چوڑیاں","زنجیر کا حلقہ","سلا ہوا فیتا جو کسی کپڑے کے ساتھ باندھنے کے لئے لگا ہو","وہ مٹی کا پُشتہ جو پانی کو روکنے کے لئے بنایا جائے","کاغذ کی دھجی"]
اسم
صفت ذاتی, اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
اقسام اسم
- ["جمع غیر ندائی : بَنْدوں[بَن + دوں (واؤ مجہول)]"]
بند کے معنی
[" اے چشم تر ٹھہر بھی کہ خط یار کو لکھوں بارش میں نامہ بر کی ہے پہروں سے راہ بند (١٨٨٨ء صنم خانۂ عشق، ٧٧)","\"یہ نہر ایک مدت سے بند پڑی ہے۔\" (١٨٧٠ء رسالہ علم جغرافیہ، ١٣:٣)","\"وہ کسی محفل اور کسی موقع پر بند نہ تھے۔\" (١٩٤٩ء گنج ہائے گراں مایہ، ٢٠٨)","\"مجھ سے آدمی کے منہ چڑھنا اور منہ لگنا کیا دل لگی ہے کچھ، جتنا نیچے اتنا اوپر، کسی شے میں بند نہیں۔ (١٩٠٣ء سرشار، سیرکہسار، ٤٢٢:١)","\"تھوڑی سی گفتگو کے بعد بند کمرے میں اظہار ہونے کی سی باتیں ہونے لگتیں۔\" (١٩٢٩ء بہارعیش سرفراز حسین، ٢٣)"," نہ اس بے مہر نے دیکھا نہ کچھ لکھا جواب اس کا یہاں سے بند خط جیسا گیا ویسا ہی بند آیا (١٩٢٢ء دیوان قمر، ٢٦:١)"," خوش لباسوں کو نہ چاہیں گے یہی عہد ہے اب بند کیا دل میں گرہ دی ہے کہ تایاد رہے (١٨٣٦ء ریاض البحر، ٢٣٩)"," طوق گل میں پاؤں میں زنجیر ڈال بند فرمایا اسیروں کی مثال (١٧٩١ء ریاض العارفین ٨١)","\"فٹن کی سواری بڑی تکلیف دہ ہوتی ہے سب طرف سے بند، ہوا کا نام نہیں\" (١٩٧١ء سہ ماہی اردو نامہ، کراچی، ٩٠:٣٩)","\"اس ٹٹو کی پچھلی ٹانگیں بند ہیں\" (١٩٢٤ء نوراللغات، ٦٧٤:١)"]
[" آئی اتنے میں ایک صدائے بلند کانپ اٹھا جس کے خوف سے ہر بند۔ (١٩٢٥ء ریاض امجد، ١٨:١)","\"آہو نے کہا اگر موش بند میرے کاٹے اور صیاد آ پہونچے تو جست کر کے بھاگ سکتا ہوں۔\" (١٨٣٥ء بستان حکمت، گویا، ٢٢٤۔)"," ستایش کروں میں خاوند کی گرہ کھولتا ہے جو ہر بند کی (١٩٣٢ء کلام بے نظیر شاہ، ٣٢٠)","\"سیلاب نیل سے بچنے کے لیے بند لگوائے تھے\" (١٩٤٣، تاریخ الحکماء، ١٠٤)","\"اس بند کی بدولت سرحدی علاقے کے دوردراز گاؤں بی بجلی کی روشنی سے جگمگا اٹھے ہیں\" (گھریلو انسائیکلوپیڈیا، ٧١٠)","\"دل کے بند ٹوٹ کر خیالات ان سے پھوٹ نکلے\" (١٩٤٤ء عنایت اللّٰہ دہلوی، تائیس١٦٤)","\"کبھی اپنے جوتوں کے بندوں کی گرہوں کو دیکھتے تھے کہ وہ چھوٹی بڑی تو نہیں۔\" (١٩٤٧ء بھولے سفر کو چلے (سالنامہ، ساتھی، جنوری) ٦٧)"," نہیں ہوتا ہے دل تو چکٹیوں میں ملا کرتا ہے وہ دو دوپہر بند (١٨٢٤، مصحفی: انتخاب رام پور، ٧٩)"," بند بالوں میں الجھ کر جو تمہارا ٹوٹا ہو گیا مجھ کو یقین رات کا تارا ٹوٹا۔ (١٨٧٢ء، دیوان قلق، مظہر عشق، ١٩٥)","\"دعوت کے بند میں میرا نام نہیں\" (١٩٢٤ء، نوراللغات، ٦٧٣:١)","\"پھر ایک گھات کے سو سو توڑ، ہر توڑ پر بند اور ہر بند کے پربند۔ (١٩٥٤ء، اپنی موج میں، آوارہ۔ ٦٩)","پہلے داؤ کا توڑ ہو جانے پر دوسرا اپنا جس سے حریف پر گرفت قائم رہے (اصلاحات پیشہ وراں، ٢:٨) (١٨٧٣ء، عقل و شعور۔ ٤٣٦)"," برآور دلی ہاتھ میر کی نظر کری مہر مہروں کی اس بند پر (١٧٩٤ء، جنگ نامہ دو جوڑا، معظم، ٥٤)"," یاں تک کہ اپنی چٹھی کے لکھنے کے واسطے کاغذ کا مانگتے ہیں ہر اک سے ادھار بند (١٨٣٠ء کلیات نظیر اکبر آبادی، ٤٦٦)"," پابند بلا وہ مبتلا تھا اب کس کو خیال بندیا تھا (١٨٣٨ء گلزار نسیم، ٤١)"," دیکھا گھات کی بات میں لاگ چھند جنم جگ کا پڑیا مرے گل میں بند (١٦٥٧ء، نصرتی، گلشن عشق، ١٢٠)"," شاہ نشیدا ہے مسدس کا گدا شیرا ہے کیسے بندے مرے بندوں کا خدا شیدا ہے (١٩٣٩ء مراثی نسیم ٤٣٦:٢)","کسی عبارت کو مختلف پیراگراف (بندوں) میں توڑنے کی جرات بھی میں نے ہی کی ہے۔\" (١٩٢٨ء، دیباچۂ فیہ مافیہ، ٦)"," قید فرنگ و بند زیست فرق سے بے نیاز ہیں موت سے پہلے آدمی جیل سے باہر آئے کیوں (١٩٣١ء بہارستان، علی ظفر خان، ٤١١)"," حسن دونا ہو گیا گوری کلائی کا تری بند جو پہنے سنہرے اور دہانی چوڑیاں (١٩٥٧ء، دیوان یاس یگانہ، ١٢٢)"," علم نے رسم نے مذہب نے جو کی تھی بندش ٹوٹی جاتی ہے وہ سب بند کھلے جاتے ہیں (١٩٠٦ء ماہنامہ، مخزن، ستمبر، ٥٦)"," ہو گیا جو بند جانا اپنا کوے یار میں یہ نہیں کھلتا کہ باندھا کس نے ایسا بند ہے (١٨٤٩ء کلیات ظفر، ١٥١:٢)","\"فارسی کے دانش منداں، جنوں سمجھتے ہیں باتاں کے بنداں، ان کوں یں بھایا ہے\" (١٦٣٥ء، سب رس،١)"," وہ لوگ ایک کوڑی کے محتاج اب ہیں آہ کسب و ہنر کے یاد ہیں جن کو ہزار بند (١٨٣٠ء کلیات نظیر اکبر آبادی، ٩٩:٢)"," کھلے نہ رستم دستاں سے گاہ و زوری میں جو دے وہ بند کمر میں دم جدال گرہ (١٩٠٠ء دیوان حبیب، ١٩)","\"زیورات عورتوں کے. بند۔\" (١٨٤٨ء توصیف زراعات، ٢٥١)"]
بند کے مترادف
باندھ, تدبیر, حبس, گانٹھ, قید, عضو, جوڑ, مسدود, ربط, چوڑی
بندش, بندھن, بوند, پشتہ, تنی, جوارِح, جوڑ, دیرج, روک, صفر, عضو, قطرہ, گانٹھ, گرہ, منی, مینڈ, نقطہ
بند کے جملے اور مرکبات
بند آب, بند باز, بند بند, بند پانی, بند پتر, بندتال, بند حساب, بند دست, بند روغ, بند روگ, بند سمندر, بند قید, بند کمرے میں, بندگاہ, بند گوبھی, بند نویس, بندوبست, بندو کشاد
بند english meaning
(lit) band(lit) fetters(lit) imprisonment(lit.) band(lit.) fetters(lit.) imprisonment; captivityamorousbarredbeltbinderbound|bund|; dam; dykecaptivityceasedcheckedclosedclosed; shutconfidentialcourtshipembankmentfastenedfasteningfonfidentialintelligible to alljointknotknucklelovingmaking lovepreventedshutstanzastillstoppedstopped; preventedthe state of being a lovertiedtied; bound
شاعری
- خوبی یک پیچہ بند خوباں کی!
خوب باندھوں گا گر دماغ لگا! - مرنے میں بند زباں ہونا اشارت ہے ندیم
یعنی ہے دور کا درپیش سفر مت پوچھو - سوراخ سینہ میرے رکھ ہاتھ بند مت کر
ان روزنوں سے دل تک کسب ہوا کرے ہے - گئی عمر در بند فکرِ غزل
سو اس فن کو ایسا بُرا کر چلے - طلب جو ہو بھی تو ہم ہونٹ بند رکھتے ہیں
کہ ہم انا کا عَلم سربلند رکھتے ہیں - بھیجی ہیں اس نے پھولوں میں منہ بند سیپیاں
انکار بھی عجب ہے‘ بلاوا بھی ہے عجب - جب تک رہی جگر میں لہو کی ذرا سی بوند
مٹھی میں اپنی بند سمندر لگا مجھے - چُھٹ کر کہاں اسیرِ محبت کی زندگی
ناصح یہ بند غم نہیں‘ قیدِ حیات ہے - صحرا کے ڈر نے ہم کو نظر بند کردیا
دیواریں کھینچ دی گئیں ہر گھر کے آس پاس - لو میں آنکھیں بند کیئے لیتی ہوں‘ اب تم رخصت ہو
دل تو جانے کیا کہتا ہے‘ لیکن دل کا کہنا کیا
محاورات
- آب و دانہ بند کردینا
- آب و دانہ بند ہونا
- آپ سنیں اپنا کمر بند سنے
- آپ کی عمر کا دامن قیامت کے دامن سے بندھے
- آثار بندھ جانا
- آج زبان کھلی ہے کل بند
- آمد (و) رفت بند ہونا
- آنسوؤں کا تار باندھنا (متعدی) بندھنا
- آنسوؤں کا تار بندھنا
- آنسوؤں کی جھڑی بندھنا۔ لگنا