بچاؤ

{ بَچا + او }

تفصیلات

iسنسکرت زبان سے ماخوذ فعل لازم |ابچنا| سے مشتق حاصل مصدر ہے اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٧٢٦ء کو "قصہ مہر افروز و دلبر" میں مستعمل ملتا ہے۔

[""]

اسم

اسم کیفیت ( مذکر - واحد )

بچاؤ کے معنی

١ - بچنے کا عمل، اجتناب۔

"اب اور اصلوں کو سنو اور ذرا ہوش کرو اور بچاو اختیار کرو۔" (١٩٥٢ء، تقویٰ، ٥)

٢ - تحفظ، حفاظت، محفوظ رہنے کی صورت حال۔

"گردن اور کندھوں کی طرف سے اس قدر نیچا ہے کہ گردن اور کندھوں کا بچاو ہو سکے۔" (١٩٣٦ء، مقالات شیرانی، ١٩)

٣ - دفاع

"پی اے ایف کے اسکوئیڈرن لیڈر . نے اس بچاؤ مہم میں کام کیا۔" (١٩٦٧ء، روزنامہ جنگ، ٢٦ جولائی، ٨)

٤ - بچت

"اجازت صرف ان کی نسبت ملے گی جو عدالت کے نزدیک واسطے انصاف یا بچاؤ خرچ کے ضروری ہوں۔" (١٩٠٨ء، مجموعہ ضابطہ دیوانی، ٧٤)

٥ - نجات، رہائی، چھٹکارا۔

"ایسے نازک وقت میں ذرا بھی غفلت ہوئی تو بچاؤ کی کوئی صورت باقی نہ رہے گی۔" (١٩٠٦ء، مقالات حالی، ١٦٦:١)

٦ - حفاظت کی جگہ، جائے پناہ۔

"جب سردیاں جاتی ہیں اور گرمیاں آتی ہیں تو خدا کی ہر مخلوق سورج سے بچاؤ ڈھونڈتی ہے۔" (١٩٢٦ء، کل کائنات بیتی، ٣)

٧ - عذر، معذرت، صفائی (جو کسی الزام یا خطرے سے بچنے کے لیے ہو)۔

"ایک شب اعظم علی خاں معتمد الدولہ سے چھپ اپنے بچاؤ کے واسطے . حاضر ہوئے۔" (١٨٩٦ء، سوانحات سلاطین اودھ، ٣٠٤:١)

٨ - حیلہ، بہانہ، پہلوتہی، ٹالم ٹول (فرہنگ آصفیہ، 370:1، نوراللغات، 573:1)۔