تخت کے معنی
تخت کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ تَخْت }
تفصیلات
iفارسی زبان سے اسم جامد ہے۔ فارسی سے اردو میں ساخت اور معنی کے لحاظ سے من و عن داخل ہوا۔ اردو میں سب سے پہلے ١٤٢١ء کو |معراج العاشقین" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["(پورب) کلاں","(عو) پلنگ","اورنگ دیہیم","بادشاہ کے بیٹھنے کی بڑی چوکی","بادشاہ کے بیٹھنے کی چوکی","بادشاہی سلطنت","بڑی چوکی","تخت گاہ","راج گدی"]
اسم
اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
اقسام اسم
- جمع غیر ندائی : تَخْتوں[تَخ + توں (و مجہول)]
تخت کے معنی
|وہ پلنگ سے چھلانگ مار کے تخت پر کوستی آتی اور تخت سے پھلانگ مار کے پلنگ پر پیٹتی جاتی۔" (١٩٣١ء، رسوا، خورشید بہو، ١٨)
شہا یہ قوم کا گلزار تھا بے برگ و بار اب تک چمن کے تخت کو تھا شاہ گل کا انتظار اب تک (١٩٣٧ء، نغمۂ فردوس، ٦٠:١)
|بڑے بڑے بادشاہوں کے الٹ گئے۔" (١٨٨٧ء، خیابان آفرینش، ٩)
|تخت گاؤں" (١٨٨٨ء، فرہنگ آصفیہ)
چنچل قطب کاشہ ہور اچپل سندھر دونوں بیٹھے مل کر سویک تخت پر (١٦٠٩ء، قطب مشتری، ٩٥)
|یہاں بھی برسویں دن تعزیے، تخت جھکا جھک بنا نقارے تاشوں سے نکالنا واجب اور فرض ہو گیا۔" (١٨٢٧ء، ہدایت المؤمنین، ٤)
|برات ہم سجائیں گے مگر آرایش والے کو تو بلواؤ، چنڈو بازوں کا تخت ضرور ہو۔" (١٨٠٠ء، فسانۂ آزاد، ٦٦٠:٣)
|حضرت عمر نے فرمایا کہ اگر وضع حمل کرے اور خاوند اس کا تخت پر رکھاہو اور دفن نہ ہوا ہو تب بھی حلال ہو جاوے گی۔" (١٨٠٦ء، نورالہدایہ، ٨١:٢)
تخت کے مترادف
سنگھاسن, سیٹ, مسند
بڑا, پلنگ, چارپائی, چوکی, حکومت, داراخلافہ, دارالخلافہ, دارالسلطنت, زین, سریر, سنگھاسن, گدّی, گدی, مسند, کلاں
تخت کے جملے اور مرکبات
تخت دار, تخت پوش, تخت بردار, تخت طاؤس, تخت شاہی, تخت سلیمان, تخت رواں, تخت و تاج, تخت نشین, تخت گاہ, تخت کی رات, تخت طلسمات, تخت نشینی, تخت عدالت, تخت کاغذ, تخت و بخت, تخت ہوائی
تخت english meaning
thronechairof state; seatstageplatform; sofabed; anyplace raised above the ground for sittingrecliningor sleepinga chair of stateA thronebedsjoypleasurewooden bed
شاعری
- دلی میں آج بھیکھ بھی ملتی نہیں انھیں
تھا کل تلک دماغ جنہیں تاج و تخت کا - ہر ایک تخت سے بالا ہے بوریا جس کا
ہمیں ہے کام اُسی دو جہان والے سے - ہَوا ہے آتشیں مزاج
ہَوا ہے آتشیں مزاج
بدل رہے ہیں سب رواج
بھٹک رہی ہے ‘ روشنی
ہُوا ہے ظُلمتوں کا راج
ہر ایک سانس قرض ہے
تمام زندگی ہے باج
وہ جس کا منتظر تھا ’’کل‘‘
اُسی کا منتظر ہے ’’آج‘‘
نشے میں گُم ہیں تخت و تاج
ہَوا ہے آتشیں مزاج
وَفا کا خُوں ہے ہر طرف
کسی جبیں پہ بَل نہیں
طرح طرح کے تجزیئے
مگر کوئی عمل نہیں
سوال ہی سوال ہیں
کسی کے پاس حل نہیِں
بکھر گئے ہیں پُھول سَب
کسی شجر پہ پَھل نہیں
نہ شرم ہے کوئی نہ لاج
ہَوا ہے آتشیں مزاج
جو پُل تھی سب کے بیچ میں
وہ رسم و راہ کھوگئی
سروں سے چھت سَرک گئی
ہر اِک پناہ کھوگئی
ترا جمال گُم ہُوا
مِری نگاہ کھوگئی
وہ ہم سے آہ‘ کھوگئی
سُلگ رہا ہے سَب سَماج
ہَوا ہے آتشیں مزاج - غلام سر اُٹھائیں گے
کہاں تھا تخت کو گُماں! - مملکت حُسن سی نہیں کوئی
عشق سا کوئی تخت و تاج نہیں - غلام سر اٹھائیں گے
کہاں تھا تخت کو گماں! - دیکھتا رہتا ہے مجُھ کو رات دِن
کوئی اپنے تخت پر بیٹھا ہُوا - میں عزل کی شبنمی آنکھ سے یہ دکھوں کے پھول چنا کروں
نرئ سلطنت مرا فن رہےمجھے تاج و تخت خدانہ دے - وہی تاج ہے وہی تخت ہے وہی زہر ہے وہی جام ہے
یہ وہی خدا کی زمین ہے یہ وہی بتوں کا نظام ہے - واسطےدیکھنے کے آرسی مصحف جس دم
بیاہ کی رات رکھا تخت پہ نوشہ نے قدم
محاورات
- کھڑا تختہ پڑا شہتیر
- بدن تختہ ہوجانا
- پائے تخت
- پایۂ تخت کو بوسہ دینا
- پریوں کا (کے) تخت اترنا
- پریوں کا تخت اتارنا
- پڑا شہتیر کھڑا تختہ
- تخت پر بٹھانا
- تخت پر جلوہ فرما ہونا
- تخت پر جلوہ فرمانا یا کرنا