تشخص کے معنی
تشخص کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ تَشَخ + خُص }
تفصیلات
iعربی زبان سے اسم مشتق ہے۔ ثلاثی مجرد کے باب تَفَعُّل سے مصدر ہے اور اردو میں بطور حاصل مصدر مستعمل ہے۔ اردو میں ١٨٨٤ء کو "تذکرۂ غوثیہ" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["سامنے آنا"]
شخص شَخْص تَشَخُّص
اسم
اسم مجرد ( مذکر - واحد )
تشخص کے معنی
"لیکن وہ اسی شاہد حقیقی کے طالب ہیں جو تعین اور تشخص بلکہ اطلاق کی قید سے بھی آزاد ہے۔" (١٩٠٧ء، شعرالحجم، ١٧٩:٥)
"کجا حفظ حکومت کے بعد اس کے نظام کے تعین و تشخص کی غلطی فاین ہذا من ذالک۔" (١٩٢٤ء، ترکات آزاد، ٢٣٤)
"جب دو قومیں اس درجہ تک پہنچ گئیں تو عقلی آزادی اور تشخص کے نہ ہونے کی وجہ سے وہیں پر رک رہیں۔" (١٨٩٠ء، معلم الیساست، ٤٤)
"ان کا کام سوائے حسد، بغض، تشخص اور جھوٹی شیخی کرنے کے کچھ نہیں۔" (١٩٠١ء، حیات جاوید، ١٥٢)
"ملک کی حدود کے تشخص کے بارے میں ان مصنفین میں اختلاف رائے ہے۔" (١٩٦٨ء اردو دائرہ معارف اسلامیہ، ٨٢٧:٣)
"انہوں نے معتزلہ کے خلاف صفات کو عین ذات مانا یعنی بجاے ان کی نفی کے ان کے جداگانہ تشخص پر اصرار کیا۔" (١٩٦٧ء، اردو دائرہ معارف اسلامیہ، ١٨٠:٣)
بعد مردن نہ تشخص نہ مدفن دیکھا ایک سی آئی نظر شاہ و گدا کی صورت (١٩٠٧ء، دفتر خیال، ٣١)
"قانون ہند میں مسلمانوں کے قومی تشخص کو تسلیم کیا گیا تھا۔" (١٩٤٧ء، ہمارا قائد، ٣٧)
تشخص کے مترادف
تعین
الزام, امتیاز, تَخصيص, تصرف, تصّرف, تعین, تقرر, خصوصیت, شَخَصَ, شخصیت, شناخت, قبضہ
تشخص english meaning
individualitypersonality; identifyingparticularizing; appropriationappropriationcensuringidentification [A~شخص]identifyingidentityparticularizingto build castles in the air
شاعری
- فرق
کہا اُس نے دیکھو‘
’’اگر یہ محبت ہے‘ جس کے دو شالے
میں لپٹے ہوئے ہم کئی منزلوں سے گزر آئے ہیں!
دھنک موسموں کے حوالے ہمارے بدن پہ لکھے ہیں!
کئی ذائقے ہیں‘
جو ہونٹوں سے چل کر لہُو کی روانی میں گُھل مِل گئے ہیں!
تو پھر اُس تعلق کو کیا نام دیں گے؟
جو جسموں کی تیز اور اندھی صدا پر رگوں میں مچلتا ہے
پَوروں میں جلتا ہے
اور ایک آتش فشاں کی طرح
اپنی حِدّت میں سب کچھ بہاتا ہُوا… سنسناتا ہُوا
راستوں میں فقط کُچھ نشاں چھوڑ جاتا ہے
(جن کو کوئی یاد رکھتا نہیں)
تو کیا یہ سبھی کچھ‘
اُنہی چند آتش مزاج اور بے نام لمحوں کا اک کھیل ہے؟
جو اَزل سے مری اور تری خواہشوں کا
انوکھا سا بندھن ہے… ایک ایسا بندھن
کہ جس میں نہ رسّی نہ زنجیر کوئی‘
مگر اِک گِرہ ہے‘
فقط اِک گِرہ ہے کہ لگتی ہے اور پھر
گِرہ در گِرہ یہ لہو کے خَلیّوں کو یُوں باندھتی ہے
کہ اَرض و سَما میں کشش کے تعلق کے جتنے مظاہر
نہاں اور عیاں ہیں‘
غلاموں کی صورت قطاروں میں آتے ہیں
نظریں جُھکائے ہوئے بیٹھ جاتے ہیں
اور اپنے رستوں پہ جاتے نہیں
بات کرتے نہیں‘
سر اُٹھاتے نہیں…‘‘
کہا میں نے‘ جاناں!
’’یہ سب کُچھ بجا ہے
ہمارے تعلق کے ہر راستے میں
بدن سنگِ منزل کی صورت کھڑا ہے!
ہوس اور محبت کا لہجہ ہے یکساں
کہ دونوں طرف سے بدن بولتا ہے!
بظاہر زمان و مکاں کے سفر میں
بدن ابتدا ہے‘ بدن انتہا ہے
مگر اس کے ہوتے… سبھی کُچھ کے ہوتے
کہیں بیچ میں وہ جو اِک فاصلہ ہے!
وہ کیا ہے!
مری جان‘ دیکھو
یہ موہوم سا فاصلہ ہی حقیقت میں
ساری کہانی کا اصلی سِرا ہے
(بدن تو فقط لوح کا حاشیہ ہے)
بدن کی حقیقت‘ محبت کے قصے کا صرف ایک حصہ ہے
اور اُس سے آگے
محبت میں جو کچھ ہے اُس کو سمجھنا
بدن کے تصّور سے ہی ماورا ہے
یہ اِک کیفیت ہے
جسے نام دینا تو ممکن نہیں ہے‘ سمجھنے کی خاطر بس اتنا سمجھ لو
زمیں زادگاں کے مقدر کا جب فیصلہ ہوگیا تھا
تو اپنے تحفظ‘ تشخص کی خاطر
ہر اک ذات کو ایک تالہ ملا تھا
وہ مخصوص تالہ‘ جو اک خاص نمبر پہ کُھلتا ہے لیکن
کسی اور نمبر سے ملتا نہیں
تجھے اور مجھے بھی یہ تالے ملے تھے
مگر فرق اتنا ہے دونوں کے کُھلنے کے نمبر وہی ہیں
اور ان نمبروں پہ ہمارے سوا
تیسرا کوئی بھی قفل کُھلتا نہیں
تری اور مری بات کے درمیاں
بس یہی فرق ہے!
ہوس اور محبت میں اے جانِ جاں
بس یہی فرق ہے!!