تصوف کے معنی
تصوف کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ تَصَوْ + وُف }
تفصیلات
iعربی زبان سے اسم مشتق ہے ثلاثی مزید فیہ کے باب تفعل سے مصدر ہے اور اردو میں بطور حاصل مصدر مستعمل ہے۔ اردو میں سب سے پہلے ١٦٧٢ء کو شاہی کے کلیات میں مستعمل ملتا ہے۔, m["اشیاء عالم کو مظاہر صفاتِ حق جاننا","تزکیہ نفس کا طریقہ","تزکیۂ نفس کا طریقہ","خواہش نفسانی سے پاک ہونا","دل سے خواہشوں کو دُور کرکے خدا کی طرف دھیان لگانا","صوفیوں کا عقیدہ","علمِ روحانی","علم معرفت","گیان دھیان","وہ علم جس کے وسیلہ سے صفائی قلب حاصل ہو"]
صوف تَصَوُّف
اسم
اسم کیفیت ( مذکر - واحد )
تصوف کے معنی
"تصوف کی بنیاد تمام تر واردات باطن پر تھی۔" (١٩٦٧ء، اردو دائرہ معارف اسلامیہ، ١٧٩:٣)
"انھوں نے اس تصوف کا بے حد اثر قبول کیا جن کی تبلیغ درویش کرتے تھے۔" (١٩٦٨ء، اردو دائرہ معارف اسلامیہ، ٦٤٧:٣)
"علم بیدانت کو کہ علم تصوف ہے خوب جانتا تھا۔" (١٨٩٨ء، تاریخ ہندوستان، ١٢٩:٦)
تصوف کے جملے اور مرکبات
تصوف گویا
تصوف english meaning
the theology of the Sufis or mystics of the East; mysticism; devoting oneself to contemplation; contemplationMystics or mysticisn.m
شاعری
- صوفی ہے وہ بے علم ہو جو بستی سے اپنی
کس کام پڑھا تو نے جو یوں علم تصوف - یہ مسائل تصوف یہ ترا بیان غالب
تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا - بے تَفَقہ جسے تصوف
وہ تصوف نہیں تَصَلّف ہے - بے تفقہ جسے تصوف ہے
وہ تصوف نہیں تصلف ہے - تصوف میں جب ڈال دیتے ہیں بات
خدا رس کہیں ہیں یہ توحید ہے - کیا تصوف تھا خلاف شرع مذہب ہی کا نام
ان دنوں کی طرح کیا صنوفی تھا لبلب ہی کا نام