تول کے معنی
تول کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ تول (و مجہول) }
تفصیلات
iہندی زبان سے اسم ہے۔ ہندی کے مصدر |تُلْنا| سے فعل متعدی |تولنا| بنا۔ جس سے |نا| علامت مصدر ہٹا کر حاصل مصدر |تول| بنایا گیا ہے۔ اردو میں سب سے پہلے ١٦٥٧ء کو "گلشن عشق" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["تولنا","تولنا کا","مقررہ وزن","مقررہ وزن (اصل لفظ تول ہے مگر فصحاء کی زبان بالفتح ہے)"]
تلنا تولنا تول
اسم
اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
اقسام اسم
- جمع غیر ندائی : تولوں[تو (و مجہول) + لوں (و مجہول)]
تول کے معنی
اک ذرا کھسکانہ پلہ تول میں تقدیر کا پھول تھا سنگ ترازو کیا مری تدبیر کا (١٩٢٧ء، شاد، میخانہ |الہام| ٤)
حاضر ہے گو پسند ہو کیا دل کا مول ہے قیمت کو پوچھتے ہو تو سونے کی تول ہے (١٩٢٧ء، شاد، میخانہ |الہام| ٣٨٧)
"یہی توازن اور برابر کی تول رسولوں کے ذریعے آئی ہوئی میزانِ شریعت کے مطابق . ہونی چاہیے۔" (١٩٣٢ء، سیرۃ النبیۖ، ٢٠٥:٤)
تول کے مترادف
مقدار, وزن
آزمایش, اندازہ, تخمینہ, تُل, جانچ, وزن
تول english meaning
(archaic) steamera governor of a town or districta kind of clotha naboba pettya prince or lordshipdeputyshiplordlymisruleprocess of weighingrulersteamshipThe act of weighingweight
شاعری
- میری آنکھوں نے جو دیکھے تھے سنہرے سپنے
تونے سونے کے ترازو میں انہیں تول دیا - توکل کے بازو کیرے تول سوں
لیتی چیند پانی خوش اوس ڈول سوں - عنقاے ظفر فتح کا در کھول کے نکلا
شہباز اجل صید کو پر تول کے نکلا - بظاہر مل نہیں سکتا ادا کا تیری اندازہ
مگر اہل نظر آنکھوں میں سب کچھ تول لیتے ہیں - جب تل گئی لڑائی ترازو کی تول میں
باٹوں سے باٹ ٹوٹے دھڑوں سے دھڑے لڑے - خط میں ایماے گراں جانی مصیبت ہوگیا
اپنے اپنے تول کر بازو کبوتر رہ گئے - اک ذرا کھسکا نہ پلہ تول میں تقدیر کا
پھول تھا سنگ ترازو کیا مری تدبیر کا - حاضر ہے گو پسند ہو کیا دل کا مول ہے
قیمت کو پوچھتے ہو تو سونے کی تول ہے - قد کتنا خوشنما ہے بدن کس قدر ہے گول
جوہر شناس ہے تو اسے موتیوں میں تول - تول کر تیغ علی کرتے تھے جب حملہ حسین
تہلکہ پڑ جاتا تھا سو سو قدم ہر ہاتھ میں
محاورات
- آنکھوں میں تولنا
- ابھی تولہ ابھی ماشہ
- الٹے کانٹے تولنا
- ایر پھیر کے تولنا
- ایک رتی باون تولے
- ایک کانٹے میں تولنا
- باون تولے پاؤ رتی
- بتولے میں آنا
- بتے(یا بتولے) میں آنا
- بنیا تولتا ہی نہیں کہے پورا تول