جادہ کے معنی
جادہ کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ جا + دَہ }
تفصیلات
iاصلاً عربی زبان کا لفظ ہے اور بطور اسم مستعمل ہے۔ اردو میں عربی سے ماخوذ ہے اور اصلی حالت اور معنی میں ہی بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٧٩٢ء میں محب کے دیوان میں مستعمل ملتا ہے۔, m["نیا ہونا","راہ گزر","سیدھی سڑک","گزر گاہ","وہ پتلا سا رستہ جو آدمیوں کی آمد و رفت سے جنگل میں پڑجاتا ہے"]
اسم
اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جادہ کے معنی
کہکشاں ہے کہ جادۂ زریں یا فلک پر ہے جدول سیمیں (١٩٢٩ء، مطلع انوار، ٤١)
"طبیعت جادۂ اعتدال سے منحرف نظر آتی ہے۔" (١٨٩٠ء، فسانۂ دل فریب، ٣٤)
گر ہے سفر وسیلہ ظفر کا تو ہم نشیں گرم سفر ہیں جادۂ یثرب کے رہ نورد (١٩٣١ء، بہارستان، ١٣٢)
جادہ کے مترادف
چلن, سڑک, صراط, ڈانڈا, راستہ, شارع
باٹ, بیٹا, پگڈنڈی, جَدّ, چلن, دستور, راہ, رستہ, رسم, رواج, ریت, سبیل, سڑک, شارع, صراط, طریقہ, لیک, لیکھ, ڈگر, ہَٹیا
جادہ کے جملے اور مرکبات
جادہ پیما, جادۂ راہ, جادہء راہ
جادہ english meaning
A path waya road mannerpractice
شاعری
- یہ جو بے رنگ سی‘ بے آب سی آتی ہے نظر
اِسی مٹی پہ پڑا کرتے تھے وہ نُور قدم
جن کی آہٹ کا تسلسل ہے یہ سارا عالم
جن کی خوشبو میں ہرے رہتے ہیں دل کے موسم
جس کی حیرت سے بھرے رہتے ہیں خوابوں کے نگر
وہ جو اِک تنگ سا رستہ ہے حرا کی جانب
اُس کے پھیلاؤ میں کونین سمٹ جاتے ہیں
آنکھ میں چاروں طرف رنگ سے لہراتے ہیں
پاؤں خُود جس کی طرف کھنچتے چلتے جاتے ہیں
یہی جادہ ہے جو جاتا ہے خُدا کی جانب
کتنی صدیوں سے مسلط تھا کوئی شک مُجھ پر
اپنے ہونے کی گواہی بھی نہیں ملتی تھی
حبس ایسا تھا کوئی شاخ نہیں ہلتی تھی!
اک کلی ایسی نہیں تھی جو نہیں کھلتی تھی
جب کُھلی شانِ ’’رفعنا لک ذِکرک‘‘ مجھ پر
آپ کا نقشِ قدم میرا سہارا بن جائے!
بادِ رحمت کا اشارا ہو سفینے کی طرف
وہ جو اِک راہ نکلتی ہے مدینے کی طرف
اُس کی منزل کا نشاں ہو مِرے سینے کی طرف
مرے رستے کا ہر اک سنگ ‘ ستارا بن جائے!! - پاؤں سے خواب باندھ کے شامِ وصال کے
اک دشتِ انتظار کو جادہ کیے ہُوئے! - تھے مصلحت کی راہ میں سائے بہت گھنے
پر دل نے اختیار وہ جادہ نہیں کیا - آئی ہے خاک جادہ بستی سے بوے گل
کس آرزو بھرے کی تمنا نکل گئی - تیغ کہساروں سے نکلیگی مرے سر کے لئے
جادہ صحرا بھی خط جلاد کا ہو جائے گا - فقط تار نفس کا ذوق خط جادہ کافی ہے
پئے عمر رواں کیا چاہییے رستہ گزارے کا - دیکھ یہ جادہ ہستی ہے سنبھل کر فانی
پِیچھے پِیچھے وہ دبے پاؤں قضا بھی آئی - خطّ جبیں کو جادہ آب بقا کہوں
بندہ کہوں یا بندہ مولا نما کہوں - سودائے راہ یار کا اللہ رے اثر
جادہ بنی جو ہم نے زمیں پر لکیر کی - ہو نہ مجھ سے جدا کہ جادہ صفت
منزل عشق کا سراغ ہوں میں