جان کے معنی
جان کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ جان }روح زندگیطاقت، زندگی
تفصیلات
iاصلاً فارسی زبان کا لفظ ہے اور بطور اسم مستعمل ہے۔ اردو میں فارسی سے ماخوذ ہے اور اصلی حالت اور اصلی معنی میں ہی بطور اسم مستعمل ہے۔ اس کی املا ن مغنونہ اور ن اصلی دونوں طرح مستعمل ہے۔ ١٧٣٩ء میں "کلیات سراج" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["اصل جوہر","پران جی","پیش گو","تعظیم اور پیار سے بڑوں کو","جاننا کا","جنون کا جد اعلیٰ","جنوں کی قوم","س۔ گَیی۔ زندگی کی ہوا","شعبدہ باز","وہ چیز جس سے ہر جاندار زندہ ہے وہ کیا ہے کسی مذہب نے آج تک فیصلہ نہیں کیا سائنس ابھی تک اس کنہ کو نہیں پہنچی"], ,
اسم
اسم نکرہ ( مؤنث - واحد ), اسم
اقسام اسم
- جمع : جانیں[جا + نیں (یائے مجہول)]
- جمع غیر ندائی : جانوں[جا +نوں (واؤ مجہول)]
- لڑکا
- لڑکی
جان کے معنی
"تمہاری جان زندہ رہے گی اور تم کو سب ابدی عہد یعنی داؤد کی نعمتیں بخشوں گا" (١٩٥١ء، کتاب مقدس، ٧٠٥)
"یہ معلوم ہوتا تھا کہ گویا معاملے کی جان نکال کہ رکھ دی ہے" (١٩٣٥ء، چند ہمعصر، ٣٥)
"راقم فقیر نے پھولوں کی نمائش دیکھی یہی سارے مجمع کی جان تھی" (١٩١٣ء، سی پارۂ دل، ٦٥:١)
"اسکندر ایک لاکھ بیس ہزار فوج سے آیا جس کی جان یونانی تھے" (١٩١٣ء، تمدن ہند، ١٥٠)
حسن ان کا تازگی کی جان ہے تجھ سے روکش ہوں یہ کب اسکان ہے (١٩٢٩ء، مطلع انوار، ١٢٣)
"شاہدہ کو جو کچھ بدگمانی تھی وہ آمنہ جی جان ہی تک تھی" (١٨٩٥ء، حیات صالحہ، ٧١)
"آج کل گرمیوں میں برف اور پنکھا جان ہے" (١٨٩٤ء، کامنی، ٤٨٣)
بانو کی روح جسم شہ بے وطن کی جاں دنیا کی زیب آل رسول زمن کی جاں (١٨٧٤ء، انیس، مراثی، ٢١٩:١)
تڑپ میں برق تھے مرکب کڑی جو رانیں تھیں بلا کے گھوڑوں میں کس بل بلا کی جانیں تھیں (١٩٥١ء، آرزو، خمسۂ متحیرہ، ٤٥:٤)
"کیا ان اقوال کے پیش کر دینے کے بعد بھی اس دعوے میں کچھ جان باقی ہے" (١٩٥٨ء، آزاد (ابوالکلام)، مسلمان عورت، ٤٤)
"دیکھیں اس میں کتنی جان ہے" (١٩٦٣ء، تجزیۂ نفس، ٢٨٣)
"بچی تیرہ برس کی جان کبھی بھولے سے بھی رات کو پھوپھی سے جدا نہ ہوئی" (١٩١٩ء، جوہر قدامت، ٤٤)
"ہر جان پانی کی خواہان اور پانی مثل مجاز خطہ میں نایاب" (١٩١٥ء، سی پارۂ دل، ٣٩)
"میں نے جھک کر اسے پکڑنا چاہا، پوری جان سے اندر لڑھک گیا" (١٩٤٤ء، رفیق حسین، گوری ہو گوری، ٤١)
جان نو چندی کو یوں آتے نہیں اس راہ سے کر بلا سے پھر کے آخر جاتے ہو درگاہ کو (١٨٣٢ء، دیوان رند، ١١:١)
بھائی حسن جو آپ کی گودی میں آئیں گے ہم تم سے نانا جان ابھی روٹھ جائیں گے (١٨٧٤ء، انیس، مراثی، ٤:١)
جان کے مترادف
حیات, خلاصہ, روح, جگر, نفس, تت[1]
آتما, آشنائی, آگاہی, اوچھا, پہچان, پیارا, جن, جَنا, دانست, روح, زندگی, شناخت, عقلمند, گیانی, محبوب, مداری, نجومی, واقف, واقفیت, ہوشیار
جان کے جملے اور مرکبات
جان پہچان, جان کاری, جان باز, جان پرور, جان دادہ, جان سوز, جان شکنی, جان عالم, جان عزیز, جان فرسا, جان فزا, جان کا دشمن, جان کا روگ, جان کا ٹکڑا, جان کی امان, جان گداز, جان گدازی, جان گسل, جان داری, جان باختہ, جان بازی, جان بوجھ کر, جان جان, جان بری, جان سے پیارا, جان سے دور, جان کا آزار, جان کا عذاب, جان مادر, جان و دل سے
جان english meaning
(of anxiety) continue to recur(theory of relativity)(usually used as plural) Effortaccuseanimationcling (to)compain (against)compulsorycontrivancedarlingendeavourenergyforceinvoluntaryLiferapesaint abroad, devil at homesoulspiritsweetheartthe essence of a thingtrickunder consraintvigourJaan
شاعری
- مرنے کا بھی خیال رہے میر اگر تجھے
ہے اشتیاق جان جہاں کے وصال کا - ہے میری تیری نسبت روح اور جسد کی سی
کب آپ سے میں تجھ کو اے جان جدا جانا - کھو ہی رہا نہ جان کو ناآزمودہ کار
ہوتا نہ میر کاش طلب گار عشق کا - تقصیر جان دینے میں ہم نے کبھو نہ کی
جب تیغ و بلند ہوئی سر جُھکا دیا - اب گھٹتے گھٹتے جان میں طاقت نہیں رہی
ٹک لگ چلی صبا کہ دیا سا بڑھا دیا - اُس لب جاں بخش کی حسرت نے مارا جان سے
اُب حیوان یُمن طالع سے مرے سم ہوگیا - یاں کوئی اپنی جان دو دشوار
واں وہی ہے سو ہے تساہل سا - ظالم ہو میری جان پہ ناآشنا نہ ہو
بے رحمی اتنی عیب نہیں بے وفا نہ ہو - پایا گیا وہ گوہر نایاب سہل کب
نکلا ہے اُس کو ڈھونڈھنے تو پہلے جان کھو - یکایک یوں نہیں ہوتے ہیں پیارے جان کے لاگو
کبھو آدم ہی سے ہوجاتی ہے تقصیر بھی آخر
محاورات
- جان بچی لاکھوں پائے (خیر سے بدھو گھر کو آئے)
- جان جانے دینا
- (اپنا سا) منہ لے کر رہ جانا
- (اپنا سا) منہ لے کر رہ جانا
- (بروں کی) جان کو رونا
- (پر) جان تصدق کرنا
- (دنیا سے) آدمیت اٹھ جانا
- (سر) آنکھوں کے بل چل کرآنا (یا جانا)
- (کام) سے جان بچانا
- (کی) جان کو آنا